ادھر حج کا فریضہ ادا ہوا ادھر معلمین حجاج کو باری باری ایئرپورٹ لانے کے عمل (بلکہ حجاج کو ایئرپورٹ پر ڈھونے کے عمل) میں لگ جاتے ہیں۔ اور حجاج بیچارے ادھر، اور ان کے لواحقین ادھر، ان سے ملنے کو بے قرار، انتظار کی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ایک عرب ملک سے تعلق رکھنے والے حاجی سعید کے ساتھ پیش آرہی تھی جو ایئرپورٹ پر بیٹھے اپنے جہاز کا انتظار کر رہےتھے۔ ان کے ساتھ والی کرسی کو خالی پاکر ایک اور حاجی صاحب آن بیٹھے۔ ایک دوسرے کو سلام کرنے بعد، ایک دوسرے کے نام ، ایک دوسرے کی شہریت اور صحت و تندرستی بلکہ ایک دوسرے کا حال احوال بھی پوچھ بیٹھے۔ یہ نو وارد کچھ زیادہ ہی گرم جوش دکھائی دیتا تھا جس کا دل ان چند باتوں سے نہیں بھرا تھا اور وہ مزید کچھ کہنے سننے کو بے تاب دکھائی دے رہا تھا۔ تاکہ گفتگو کا سلسلہ مزید چل نکلے۔
اس نے خود ہی اپنے بارے میں بتانا شروع کیا کہ:
برادر سعید، میں پیشے کے لحاظ سے ایک ٹھیکیدار ہوں۔ اس سال مجھے ایک بہت بڑا ٹھیکہ مل گیا، یہ ٹھیکہ تو گویا میری زندگی کے حاصل جیسا تھا۔ اور میں نے نیت کر لی کہ اللہ کی اس نعمت کے شکرانے کے طور پر میں اس سال دسویں بار فریضہ حج ادا کرونگا۔ بس اپنی منت کو پورا کرنے کیلئے میں نے اپنا حج داخلہ کرایا۔ ادھر آ کر بھی خوب صدقات دیئے اور خیراتیں کیں تاکہ اللہ میرے حج کو قبول کرلے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں دسویں بار حاجی بن گیا ہوں۔
سعید صاحب نے سر کو ہلا کر گفتگو میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور مسنون طریقے سے
حج کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا
حجا مبرورا ، و سعیا مشکورا، و ذنبا مغفورا ان شاء اللہ
(اللہ کرے آپ کا حج مقبول ہو، آپ کی سعی مشکور ہو اور آپ کے گناہ معاف کر دیئے جائیں)
اس شخص نے مسکرا کر سعید صاحب کی نیک تمناؤں کا شکریہ ادا کیا اور کہا:
اللہ تبارک و تعالیٰ سب کے حج قبول کرے، تو سعید صاحب، کیا آپ کے حج کا بھی کوئی خاص قصہ ہے ؟
سعید نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا
ہاں جی، میرے حج کے پیچھے بھی ایک طویل قصہ ہے مگر میں یہ قصہ سنا کر آپ کے سر میں درد نہیں کرنا چاہتا۔
یہ سن کر وہ شخص ہنس پڑا اور کہا؛