مندرجہ ذیل قصہ ایک نہایت ہی معتبر شخص نے سنایا، کہتا ہے کہ یہ قصہ اسکے والد کے زمانے میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے ایک نوجوان کا ہے، میں آپکو اسی نوجوان کی زبانی سناتا ہوں۔
قبائلی رسم و رواج کے مطابق میں دور سے ہی ہاتھ اُٹھا کر اور بلند آواز سے سلام کرتے ہوئے اس پر وقار شخص کی طرف بڑھ رہا تھا، جی ہاں، اپنے قبیلے کے شیخ کی طرف، جو دوپہر ڈھلتے ہی اپنے گھر کی دیوار کے ساتھ بنی منڈھیر پر اونی چٹائی بچھا ئے، چائے اور عربی قہوہ کی کیتلیاں اور تھرماس پاس رکھ کر آئے گئے مہمانوں کا استقبال کرتا تھا۔ یہ شیخ صاحب کا روز کا معمول تھا۔ اُسکی یہ محفل عصر سے پہلے سجتی تھی اور مہمانوں کے آنے جانے کا سلسلہ عشاء کے بعد تک چلتا تھا۔
میں شیخ صاحب سے مصافحہ کرکے ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ حتی المقدور اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہوئے عرض کیا: اے شیخ میں آپ سے مشورہ کرنے کیلئے حاضر ہوا ہوں۔ پچھلے ایک سال سے شادی کے بعد سے اب تک میرا نہایت ہی برا حال ہے۔
شیخ صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اور گویا ہوئے: کیوں برخوردار، ایسی کیا بات ہے؟ الحمد للہ مجھے تو تم اچھے بھلے نظر آ رہے ہو۔
میں نے اپنے سر کو دائیں بائیں انکار میں ہلاتے ہوئے کہا: نہیں شیخ صاحب، میں ٹھیک نہیں ہوں، میری بیوی، میری بیوی ایک پاگل ہے۔