Sunday, October 30, 2011

چونچ بھر پانی

نمرود بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو زندہ جلانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ایک بڑے میدان میں آگ بھڑکائی جارہی تھی دور دور سے جنگل کاٹ کر لکڑیاں لاکر اس آگ میں ڈالی جارہی تھیں کئی ہفتوں کی محنت سے آگ بھڑک اٹھی اس کے شعلے آسمان تک پہنچ رہے تھے۔ اس کا دھواں چاروں طرف پھیل کر لوگوں کو ہیبت زدہ کررہا تھا ۔

Tuesday, October 25, 2011

عبادت اور کاروبار - سبق آموز قصہ

حاجی صاحب نے آخری عمر میں فیکٹری لگالی اور چوبیس گھنٹے فیکڑی میں رہنے لگے- وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے دفتر میں کام کرتے تھے اور جب تھک جاتے تھے تو فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس میں سو جاتے تھے- حاجی صاحب کے مزاج کی یہ تبدیلی سب کیلیۓ حیران کن تھی- وہ تیس برس تک دنیاداری کاروبار اور روپے پیسے سے الگ تھلگ رہے تھے انہوں نے یہ عرصہ عبادت اور ریاضت میں گزاراتھا اور اللہ تعالی نے انہیں اس ریاضت کا بڑا خوبصورت صلہ دیا تھا وہ اندرسے روشن ہوگۓ تھے وہ صبح آٹھ بجے اپنی بیٹھک کھولتے تھے اور رات گۓ تک ان کے گرد لوگوں کا مجمع رہتا تھا،لوگ اپنی اپنی حاجت لے کر ان کے پاس آتے تھے- وہ ان کے لیۓ دعا کا ہاتھ بلند کر دیتے تھے اور اللہ تعالی سائل کے مسائل حل فرمادیتا تھا- اللہ تعالی نے ان کی دعاؤں کو قبولیت سے سرفراز کر رکھا تھا لیکن پھر اچانک حاجی صاحب کی زندگی نے پلٹا کھایا- وہ ایک دن اپنی گدی سے اٹھے، بیٹھک بند کی، اپنے بیٹوں سے سرمایہ لیا اور گارمنٹس کی ایک درمیانے درجے کی فیکٹری لگا لی- انہوں نے اس فیکٹری میں پانچ سو خواتین رکھیں- خود اپنے ہاتھوں سے یورپی خواتین کے لیۓ کپڑوں کے نۓ ڈیزائن بناۓ- یہ ڈیزائن یورپ بھجواۓ- باہر سے آرڈر آۓ اور حاجی صاحب نے مال بنوانا شروع کردیا- یوں ان کی فیکٹری چل نکلی اور حاجی صاحب دونوں ہاتھوں سے ڈالر سمیٹنے لگے- دنیا میں اس وقت گارمنٹس کی کم و بیش دو،تین کروڑ فیکٹریاں ہوں گی اور ان فیکٹریوں کے اتنے ہی مالکان ہوں گے لیکن ان دو تین کروڑ مالکان میں حاجی صاحب جیسا کوئی دوسرا کردار نہیں ہو گا ـ پوری دنیا میں لوگ بڑھاپے تک کاروبار کرتے ہیں اور بعدازاں روپے پیسے اور اکاؤنٹس سے تائب ہو کر اللہ اللہ شروع کر دیتے ہیں لیکن حاجی صاحب ان سے بالکل الٹ ہیں- انہوں نے پینتیس سال کی عمر میں کاروبار چھوڑا اللہ  سے لو لگائی لیکن جب وہ اللہ کے قریب ہو گۓ توانہوں نے اچانک اپنی آباد خانقاہ چھوڑی اور مکروہات کے گڑھے میں چھلانگ لگا دی- وہ دنیا کے واحد بزنس مین ہیں جو فیکٹری سے درگاہ تک گۓ تھے اور پھر درگاہ سے واپس فیکٹری پر آگۓـ حاجی صاحب کی کہانی ایک کتے سے شروع ہوئی تھی اور کتے پر ہی ختم ہوئی

Friday, October 21, 2011

حب الوطنی

آج کل شاہد اور فائقہ اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ میرے پاس آئے ہوئے ہیں- کل چودہ اگست کو سارا دن ٹی وی آن رہا، رات کو شاہد مجھ سے کہنے لگا

میں سوچتا ہوں ابو! بڑھاپا پاکستان میں ہی گزاروں- ساٹھ ستر سال عمر میں یہاں آ جاؤں گا- انسان کو اپنی مٹی میں ہی ہونا چاہیۓ- ہے نا...؟

Monday, October 17, 2011

ایک عالمِ دین کی بذلہ سنجی

شیخ عبداللہ المطلق سعودی عرب کے بڑے علماء کی کمیٹی کے رکن ہیں۔ اُنکا شمار فی البدیہ اور فوراً فتویٰ دینے کے حوالے سے مشہور ترین علماء میں ہوتا ہے۔ اپنی بذلہ سنجی، ظریف اور پُر مزاح طبیعت کی وجہ سے عوام میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ براہ راست پروگراموں میں اُن سے پوچھے گئے سوالات کے جواب سننے کے لائق ہوتے ہیں۔


آپکی تفریح طبع کیلئے اُنکے کُچھ دلچسپ جوابات اور فتاویٰ جات پیش ِخدمت ہیں۔

ایک سائل نے شیخ صاحب سے سوال کیا؛ شیخ صاحب کیا پینگوئن کا گوشت کھانا حلال ہے؟
شیخ صاحب نے اُسے جواب دیا؛ اگر تجھے پینگوئن کا گوشت مل جاتا ہے تو کھا لینا۔

ایک مرتبہ ایک لڑکی نے ٹیلیفون کر کے پوچھا؛ شیخ صاحب، میری امی بہت عمر رسیدہ ہے اور چل پھر بھی نہیں سکتی۔ اشد ضرورت اور حوائج کیلئے فقط رینگ کر چلتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اسلام میں میری امی کا مقام کن لوگوں میں شمار ہوتا ہے؟ 
شیخ صاحب نے جواب دیا؛ تیری امی کا مقام رینگ کر چلنے والی مخلوقات میں شمار ہوتا ہے۔

Friday, September 30, 2011

کبوتر

کبوتر بڑے کام کا جانور ہے۔ يہ آباديوں ميں جنگلوں ميں، مولوی اسمعيل ميرٹھی کی کتاب ميں، غرض يہ کہ ہر جگہ پايا جاتا ہے ۔کبوتر کی دو بڑی قسميں ہيں۔ نيلے کبوتر۔ سفيد کبوتر، نيلے کبوتر کی بڑی پہچان يہ ہے کہ وہ نيلے رنگ کا ہوتا ہے، سفيد کبوتر بالعموم سفيد ہی ہوتا ہے۔

Monday, September 26, 2011

(سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت (تاریخ کے اوراق سے

آج تو عجیب ہی حالت ہے، سمجھ ہی نہیں آرہی بات کہاں سے شروع کروں اور کن الفاظ سے شروع کروں! یہ بات ایک ایسی خبر سے متعلق ہے جو شیخ الاسلام علامہ اِبن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف (النفیس الدرر الکامنہ) کے تیسرے حصے میں صفحہ نمبر 202 پر درج فرمائی ہے۔


کاش کاغذ و قلم والی روایتی خط و کتابت کا رواج ہوتا تو یہ خط عنبر و عطر سے مہکا کر بھیجتا، تاکہ لفاظی کی کمی ظاہری خوبصورتی میں چھپ جاتی۔

تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ آج مجھے عزت و حرمت و تکریم اور ناموسِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر بات کرنی ہے، دل میں لاکھ عشق سہی مگر حروف میں بیان کرنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ آپ سے گزارش ہے موضوع میں کوئی بھی کمی، کوتاہی یا غلطی میری کم علمی شمار کیجیئے مگر دانستگی ہرگز نہیں۔

Friday, September 23, 2011

ڈراپ سین

میری نظر اس پر اچانک پڑ گئی تھی، ورنہ رنگ و بو کے اس سیلاب میں جہاں لوگ اپنی ہی ہستی میں گم تھے، کسی کو اپنے آپ کا ہوش نہیں تھا- کوئی کسی پر توجہ دینے کیلئے اپنی بے خودی کے شکنجے سے باہر کس طرح آ سکتا تھا، مگر جب میں نے اسے دیکھا تو نظر انداز نہ کر سکا- اس نے اپنے وجود کو اس طرح چھپا رکھا تھا' جیسے کوئی دیکھے گا تو چرا لے گا، جیسے وہ کوئی انمول ہیرا یا قیمتی خزانہ ہو

Sunday, September 18, 2011

پياسا کوا


ايک پياسے کوے کو ايک جگہ پانی کا مٹکا پڑا نظر آيا۔ بہت خوش ہوا ليکن يہ ديکھ کر مايوسی ہوئی کہ پانی بہت نيچے فقط مٹکے کی تہہ ميں تھوڑا سا ہے۔ سوال يہ تھا کہ پانی کو کيسے اوپر لائے اور اپنی چونچ تر کرے۔

Tuesday, September 13, 2011

بھارت

يہ بھارت ہے، گاندھی جی يہیں پيدا ہوئے تھے، لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے، ان کو مہاتما کہتے تھے، چنانچہ مار کر ان کو يہیں دفن کر ديا اور سمادھی بنا دی، دوسرے ملکوں کے بڑے لوگ آتے ہيں تو اس پر پھول چڑھاتے ہيں، اگر گاندھی جی نہ مرتے يعنی نہ مارے جاتے تو پورے ہندوستان ميں عقيدت مندوں کيلئے پھول چڑھانے کی کوئی جگہ نہ تھی، يہی مسئلہ ہمارے يعنی پاکستان والوں کے لئے بھی تھا، ہميں قائدِ اعظم کا ممنون ہونا چاہئيے کہ خود ہی مرگئے اور سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کی ايک جگہ پيدا کردی ورنہ شايد ہميں بھی ان کو مارنا ہی پڑتا۔

Sunday, September 11, 2011

ہمارا ملک

ہمارا ملک
ايران ميں کون رہتا ہے؟
ايران ميں ايرانی قوم رہتی ہے؟
انگلستان ميں کون رہتا ہے؟
انگلستان ميں انگريز قوم رہتی ہے؟
فرانس ميں کون رہتا ہے؟
فرانس ميں فرانسيسی قوم رہتی ہے؟
يہ کون سا ملک ہے؟

Thursday, September 8, 2011

عقلمند بوڑھا

ایک دفعہ ایک بادشاہ مع وزیر کے جنگل کی سیر کو گیا‘ ایک بوڑھے کو دیکھا کہ باغ میں گٹھلیاں بورہا ہے۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اس سے پوچھو کیا بورہا ہے۔ جب وزیر نے پوچھا تو اس نے کہا کہ کھجور کی گٹھلیاں بورہا ہوں‘ بادشاہ نے پوچھا کہ یہ کتنے برس میں پھل لے آئیں گے۔ بوڑھے نے کہا کہ بیس پچیس سال کے بعد۔ بادشاہ ہنسا کہ بوڑھے میاں کے پیر قبر میں لٹک رہے ہیں اور بیس پچیس سال آئندہ کا سامان کررہے ہیں۔ وزیر نے یہ بات بوڑھے سے کہی تو وہ کہنے لگا کہ اگر سب باغ لگانے والے یہی سوچا کرتے جو تم سوچتے ہو تو آج تم کو ایک کھجور بھی نصیب نہ ہوتی۔ میاں! دنیا کا کام یوں ہی چلتا ہے کہ کوئی لگاتا ہے‘ کوئی کھاتا ہے۔ بادشاہ نے یہ معقول جواب سن کر کہا نَعَم”بے شک صحیح ہے“- بادشاہ کا یہ قاعدہ تھا کہ جس شخص کی بات پر نَعَم کہہ دیا اس کو ایک ہزار دینار دئیے جائیں۔ چنانچہ وزیر نے اس وقت ایک ہزار دینار کا توڑا اس کے حوالے کیا۔ اس کے بعد دونوں آگے چلنے لگے۔ تو بوڑھے نے کہا کہ میری ایک بات سنتے جائو- وزیر نے کہا کہو کیا بات ہے؟

Sunday, September 4, 2011

شیر

شیر آئے، شیر آئے، دوڑنا
آج کل ہر طرف شیر گھوم رہے ہیں۔
دھاڑ رہے ہیں۔
!یہ شیرِ بنگال ہے
!!یہ شیرِسرحد ہے
!!یہ شیرِپنجاب ہے
لوگ بھڑیں بنے اپنے اپنے باڑوں میں دبکے ہوئے ہیں
بابا حفیظ جالندھری کا شعر پڑھ رہے ہیں
” شیروں کو آزادی ہے
آزادی کے پابند رہیں
جس کو چاہیں، چیریں پھاڑیں
کھائیں پئیں آنند رہیں”
شیر یا تو جنگل میں ہوتے ہیں
!یا چڑیا گھر میں
،یہ مُلک یا تو جنگل ہے

Thursday, September 1, 2011

آدمی


دودھ دینے والے جانوروں میں پالنے لئیے سب سے اچھا یہ ہے۔ یہ نوکری کرتا ہے، دوکان کرتا ہے، تنخواہ لاتا ہے، بچے کھلاتا ہے، انھیں پیٹھ پر بٹھاتا ہے۔ عجیب شکلیں بنا کر ہنساتا ہے، بہلاتا ہے۔ اپنی مادہ کی خدمت میں جتنی دوڑ دھوپ یہ کرتا ہے کوئی اور جانور نہیں کرتا۔ اسی لئے تو اس کے سینگ غائب ہو گئے ہیں، کھر گھس گئے ہیں اور دُم جھڑ گئی ہے۔

Tuesday, August 30, 2011

کتا

کتا پالتوجانور ہے۔ ہمارے شہر کی کارپوریشن اسے پالتی ہے اور مختلف علاقوں میں چھوڑ دیتی ہے۔ کارپوریشن اور بھی کئی جانور پالتی ہے مثلاً مچھر، مثلاً چوہے۔ لیکن بھونکنے والا جانور یہی ہے۔ کتابوں میں آیا ہے کہ جو کتے بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں۔ کاٹنے والے کو بھونکنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بھونکتا وہ ہے جسے کاٹا جائے جس کو گزند پہنچے۔

Monday, August 29, 2011

زبان کے لگائے ہوئے زخم


کسی جگہ ایک لڑکا رہتا تھا،  انتہائی  اکھنڈ مزاج اور غصے سے بھرا رہنے والا، اُسے راضی کرنا تو  آسان کام تھا ہی نہیں۔
ایک دن اُس کے باپ نے  ایک تھیلی میں کچھ کیل ڈال کر اُسے دیئے کہ آئندہ  جب بھی  تم اپنے آپے سے باہر ہو جاؤ یا کسی سے اختلافِ رائے ہو جائے تو گھر کے باغیچے کی دیوار پر جا کر ایک کیل گاڑ دیا کرو۔

Thursday, August 25, 2011

حکمران اور تھکا دینے والا امتحان

سیدنا عمر اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے درمیان پیش آنے والے اس واقعہ میں، جو لوگ غور و فکر اور تدبر کرنا چاہتے ہوں، اُن کی عبرت کے لئے بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں۔

ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب (روضۃ المُحبین و نزھۃ المشتاقین) میں لکھتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کی نماز کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غائب پاتے۔

وہ دیکھ رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کی ادائیگی کیلئے تو باقاعدگی سے مسجد میں آتے ہیں مگر جونہی نماز ختم ہوئی وہ چپکے سے مدینہ کے مضافاتی علاقوں میں ایک دیہات کی طرف نکل جاتے ہیں۔

کئی بار ارادہ بھی کیا کہ سبب پوچھ لیں مگر ایسا نہ کر سکے ۔ ایک بار وہ چپکے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل دیئے۔

Tuesday, August 23, 2011

نماز کی عظمت واہمیت

صحابی رسول(صلی الله علیه و آله و سلّم) حضرت ابو طلحہ انصاری (رضی اللہ عنہ) ایک مرتبہ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک پرندہ اڑا اور باغ کے گنجان ہونے کے باعث اسے باہر جانے کا راستہ نہ ملا جس کی وجہ سے وہ پھڑ پھڑاتا ہوا درختوں کے درمیان سے باہر جانے کا راستہ ڈھونڈتارہا

Monday, August 22, 2011

کیا آج کے آئمہ میں ایسے اعلیٰ اخلاق و کردار پاۓ جاتے ہیں؟

ایک مرتبہ امام ابو حنیفہ کہیں جا رہے تھے‘ راستے میں زبردست کیچڑ تھا‘ ایک جگہ آپ کے پاؤں کی ٹھوکر سے کیچڑ اڑکر ایک شخص کے مکان کی دیوار پر جالگا‘ یہ دیکھ کر آپ بہت پریشان ہوگئے کہ کیچڑ اکھاڑ کر دیوار صاف کی جائے تو خدشہ ہے کہ دیوار کی کچھ مٹی اتر جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دیا تو دیوار خراب رہتی ہے۔

Saturday, August 20, 2011

اُونٹ

اُونٹ ایک جانور ہے، اکبر الہ آبادی نے اسے مسلمان سے تشبیہ دی ہے کیونکہ مسلمان کی طرح اس کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی اور مسلمان کی طرح یہ بھی صحرا کا جانور ہے۔ بہت دن تک بے کھائے پیئے زندہ رہتا ہے۔ جس طرح ہر مسلمان کی پیٹھ پر عظمتِ رفتہ کا کوہان ہوتا ہے اس کی پیٹھ پر بھی ہوتا ہے۔ 

Thursday, August 18, 2011

گدھا


گدھا بڑا مشہور جانور ہے۔ گدھے دو طرح کے ہوتے ہیں،چار پاؤں والے اور دو پاؤں والے۔ سینگ ان میں کسی کے سر پر نہیں ہوتے۔ آج کل چار پاؤں والے گدھوں کی نسل گھٹ رہی ہے دو پاؤں والوں کی بڑھ رہی ہے۔

Tuesday, August 16, 2011

بکری


گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی، لیکن دودھ یہ بھی دیتی ہے۔ عام طور پرصرف دودھ دیتی ہے لیکن مجبور کریں تو کچھ منگنیاں بھی ڈال دیتی ہے۔
جن بکریوں کو شہرتِ عام اور بقائے دوام میں جگہ ملی ہے، ان میں ایک گاندھی جی کی بکری تھی اور ایک اخفش نامی بزرگ کی، روایت ہے کہ وہ بکری نہیں بکرا تھا، معقول صورت۔

بھیڑ


بھیڑ کی کھال مشہور ہے، بھیڑ کی چال مشہور ہے اور بھیڑ کا مآل بھی مشہور ہے۔ بہت کم بھیڑیں عمرِ طبعی کو پہنچتی ہیں۔

Saturday, August 13, 2011

گائے

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری گائے بنائی

یہ شعر مولوی اسماعیل میرٹھی کا ہے۔ شیخ سعدی وغیرہ کا نہیں ۔ یہ بھی خوب جانور ہے دودھ کم دیتی ہے۔ عزت زیادہ کراتی ہے، پرانے خیال کے ہندو اسے ماتا جی کہ کر پکارتے ہیں، ویسے بچھڑوں سے بھی اس کا یہی رشتہ ہوتا ہے۔

Thursday, August 11, 2011

بھینس

بہت مشہور جانور ہے، قدمیں عقل سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے. چوپایوں میں یہ واحد جانور ہے کہ موسیقی سے ذوق رکھتا ہے. اسی لئے لوگ اِس کے آگے بین بجاتے ہیں. کسی اور جانور کے آگے نہیں بجاتے.

بيا ن پا لتو جا نورں کا

بھلا ایسا بھی کوئی گھر ہے جس ميں ایک نہ ایک پالتو جانور نہ ہو. گائے نہیں تو بھینس، بھیڑ نہیں تو بکری. کتا نہیں تو بّلی، گھوڑا نہیں تو گدھا. جانور پالنا بڑی اچھی بات ہے. یہ صرف انسان کا خاصہ ہے. آپ نے کبھی نہ دیکھا ہوگا کہ کسی طوطے نے خرگوش پالا ہو، کسی مرغی نے کوئی بّلی پالی ہو، یا کسی گدھے نے کوئی گھوڑا پالا ہو. گدھا بظاہر کیسا بھی نظر آئے ایسا گدھا بھی نہیں ہوتا

Monday, August 8, 2011

(صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے (حصہ چہارم - ہاتھی اور اُسکی رسی

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب  میں نے ایک چڑیا گھر میں ایک عظیم الجثہ ہاتھی کو ایک چھوٹی  سی رسی سے  اسکے اگلے پاؤں کو بندھا ہوا دیکھا تو مجھے بہت حیرت  ہوئی تھی۔ ہاتھی رسی کے ساتھ بندھے ہوئے کھڑا  تھا ایک محدود دائرے میں گھوم رہا تھا۔ ہاتھی کی ضخامت کے اعتبار سے تو اُسے کسی مضبوط زنجیر اور فولادی کڑے سے باندھا جانا چاہیئے تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ ہاتھی کسی بھی لمحے اپنے پاؤں کی معمولی جنبش سے اس رسی کو تڑا کر آزادی حاصل کر سکتا تھا مگر وہ ایسا نہیں کر رہا تھا۔
مجھے جیسے ہی ہاتھی کا رکھوالا نظر آیا تو میں نے اُسے اپنے پاس بلا کر پوچھا: یہ اتنا بڑا ہاتھی کس طرح ایک چھوٹی سی رسی سے بندھا ہوا کھڑا ہے اور یہ کیوں نہیں اپنے آپ کو چھڑوا کر بھاگ جاتا؟

Saturday, August 6, 2011

(صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے (حصہ سوئم - کولڈ سٹور کا قیدی

کہتے ہیں کہ کسی  غذائی مواد  کو سٹور اور فروخت کرنے والی  کمپنی  کے ایک کولڈ سٹور میں،  وہاں کام کرنے والا ایک شخص سٹور میں  موجود سٹاک کے  معائنے  اورسامان کی  گنتی کیلئے گیا۔وہ جیسے ہی کولڈ سٹور میں  داخل ہوا تو پیچھے سے دروازہ بند ہوگیا۔ اس شخص نے شروع میں خود دروازہ کھولنے اور پھر بعد میں دروازہ پیٹ کر باہر سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر دونوں صورتوں میں ناکام رہا۔ بد قسمتی سے اس وقت ہفتے کے اختتامی لمحات  چل رہے تھے۔ اور اگلے دو دن ہفتہ وار چٹھیاں تھیں۔ اس شخص نے جان لیا کہ باہر کی دنیا سے رابطہ کا کوئی ذریعہ نہیں رہا اور نا ہی  وہ کسی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے تو یقینی بات ہے کہ  اُس کی ہلاکت کا وقت آ چکا ہے۔

Wednesday, August 3, 2011

(صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے (حصہ دوئم - تیز دوڑنے سے متعلق غلط اعتقاد


آج سے پچاس سال پہلے تک دوڑنے کی مشق کے بارے میں ایک غلط عقیدہ پایا جاتا تھا کہ: کوئی بھی انسان چار منٹوں سے کم وقت میں دوڑ کر ایک میل کی مسافت طے نہیں کر سکتا۔ اگر کسی شخص نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو اُسکا دل پھٹ جائے گا۔

Tuesday, August 2, 2011

(صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے (حصہ اول - طالبعلم اور نا قابل حل سوالات


کولمبیا کی ایک یونیورسٹی میں ریاضیات کے لیکچر کے دوران کلاس میں حاضر ایک لڑکا بوریت کی وجہ سے سارا وقت پچھلے بنچوں پر مزے  سے  سویا رہا، لیکچر کے اختتام پر طلباء کے باہر جاتے ہوئے شور مچنے پر اسکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ پروفیسر نے تختہ سیاہ پر دو سوال لکھے ہوئے ہیں۔ لڑکے نے انہی دو سوالوں کو ذمیہ کام سمجھ کر جلدی جلدی اپنی نوٹ بک میں لکھا اور دوسرے لڑکوں کے ساتھ ہی کلاس سے نکل گیا۔ گھرجا کرلڑکا ان دو سوالوں کےحل سوچنے بیٹھا۔ سوال ضرورت سے کچھ زیادہ ہی مشکل ثابت ہوئے۔ ریاضیات کا اگلا سیشن چار دنوں کے بعد تھا اس لئے لڑکے نے سوالوں کو حل کرنے کیلئے اپنی کوشش جاری رکھی۔ اور یہ لڑکا چار دنوں کے بعد ایک سوال کو حل کر چکا تھا۔

Monday, August 1, 2011

(اخفش کی بکریاں (بز اخفش


میں جب بہت چھوٹا تھا تو مجھے اپنا سکول کا کام کرنے میں بہت دشواری پیش آتی تھی. میرے والد صاحب مجھے تھوڑا سا اشارہ دے کر میری مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے.میں  چاہتا تھا کہ وہ میرے لیے حساب کا سوال حل کریں مگر وہ ایسا نہیں کرتے تھے.  لہذا میں ان کا اشارہ سمجھنے کی کوشش میں مشغول چپ چاپ بیٹھا اپنی کاپی کو دیکھتا رہتا. پھر وہ مجھ سے پوچھتے کہ کیا مجھے سمجھ آ گئی ہے؟ اور میں آہستگی سے ہاں میں سر کو ہلا دیتا. اور والد صاحب کی گونجدار آواز  کانوں سے ٹکراتی

Friday, July 29, 2011

منافع کا سودا


سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

Wednesday, July 27, 2011

More Facts, You Might not know!


  1. Wearing headphones for just an hour will increase the bacteria in your ear by 700 times.
  2. Grapes explode when you put them in the microwave.
  3. Those stars and colours you see when you rub your eyes are called phosphenes.

Tuesday, July 26, 2011

مال تمہاری ملکیت مگر وسائل معاشرے کی امانت


جرمنی  ایک صنعتی ملک ہے جہاں دُنیا کی بہترین مصنوعات اور بڑے بڑے برانڈز مثلاً مرسیڈیز بینز، بی ایم ڈبلیو اور سیمنز پروڈکٹس بنتے ہیں۔ ایٹمی ری ایکٹر میں استعمال ہونے والے پمپ تو محض اس ملک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بنتے ہیں۔ اس طرح کے ترقی یافتہ ملک کے بارے  میں کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ وہاں  لوگ کس طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہونگے، کم از کم میرا خیال تو اُس وقت یہی تھا جب میں پہلی بار اپنی تعلیم کے سلسلے میں سعودیہ سے جرمنی جا رہا تھا۔


میں جس وقت ہمبرگ پہنچا تو وہاں پہلے سے موجود  میرے دوست میرے استقبال کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں دعوت کا پروگرام بنا چکے تھے۔ جس وقت ہم ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے  اس وقت وہاں گاہک نا ہونے کے برابر اور اکثر میزیں خالی نظر آ رہی تھیں۔  ہمیں جو میز دی گئی اس کے اطراف میں ایک میز پر  نوجوان میاں بیوی کھانا کھانے میں مشغول تھے ،  اُن کے سامنے صرف ایک ڈش میں کھانا رکھا ہوا تھا جس کو وہ اپنی اپنی پلیٹ میں ڈال کر کھا رہے اور شاید دونوں کے سامنے ایک ایک گلاس جوس بھی رکھا ہوا نظر آ رہا تھا جس سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ بیچاروں کا رومانوی ماحول میں بیٹھ کر کھانا کھانے کوتو  دل چاہ رہا  ہوگا مگر جیب زیادہ اجازت نا دیتی ہو گی۔ ریسٹورنٹ میں ان کے علاوہ کچھ عمر رسیدہ خواتین نظر آ رہی تھیں۔ 

Sunday, July 24, 2011

یہ وقت بھی گزر جائے گا

کسی بادشاہ نے اپنے ملک سے تمام پڑھے لکھے، عقلمند اور عالم قسم کے لوگوں‌کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا مشورہ، منتر یا مقولہ ہے کہ جو ہر قسم کے حالات میں کام کرے، ہر صورتحال اور ہر وقت میں اس ایک سے کام چل جائے۔ کوئی ایسا مشورہ جو کہ میں اگر اکیلے میں ہوں‌اور میرے ساتھ کوئی مشورہ کرنے والا نہ ہو تب بھی مجھے اس کا فائدہ ہو؟

Thursday, July 21, 2011

Facts You Might not know


  1. The sound you hear when you crack your knuckles is actually the sound of nitrogen gas bubbles bursting. 
  2. Until babies are six months old, they can breathe and swallow at the same time. Indeed convenient!
  3. Offered a new pen to write with, 97% of all people will write their own name.

Tuesday, July 19, 2011

گدھا اِبنِ گدھا


ايک دفع كا ذكر ہے كہ عربوں كے ايک اصطبل ميں بہت سے گدھے رہتے تھے ، اچانک كيا ہوا كہ ايک نوجوان گدھے نے كھانا پينا چھوڑ ديا، بھوک اور فاقوں سے اسكا جسم لاغر و كمزور ہوتا گيا، كمزوری سے تو بيچارے كے كان بھی لٹک كر رہ گئے۔ گدھے كا باپ اپنے گدھے بيٹے كی روز بروز گرتی ہوئی صحت كو ديكھ رہا تھا۔


ايک دن اس سے رہا نہ گيا اس نے اپنے گدھے بيٹے سے اسكی گرتی صحت اور ذہنی و نفسياتی پريشانيوں كا سبب جاننے كيلئے تنہائی ميں بلا كر پوچھا، بيٹے كيا بات ہے، ہمارے اصطبل ميں تو اعلٰی قسم كی جو كھانے كيلئے دستياب ہيں، مگر تم ہو كہ فاقوں پر ہی آمادہ ہو، تمہيں ايسا كونسا روگ لگ گيا ہے، آخر مجھے بھی تو كچھ تو بتاؤ، کسی نے تيرا دل دكھایا ہے يا كوئی تكليف پہنچائی ہے؟

Saturday, July 16, 2011

Why Me? A lesson for all...

Arthur Robert Ashe, Jr. (July 10, 1943 – February 6, 1993), an African American, was a legendary tennis player. He won three Grand Slam titles, putting him among the best ever from the United States.
Arthur Ashe was dying of AIDS which he got due to infected blood he received during a heart surgery in 1983. From world over, he received letters from his fans, one of which conveyed: “Why does GOD have to select you for such a bad disease”?
To this Arthur Ashe replied:

Wednesday, July 6, 2011

Are Managers always like this or it is a joke?



A team of Managers was given an assignment to measure the height of a flagpole. So the Managers go out to the flagpole with ladders and tape. 


They're falling off the ladders, dropping the tape measures - the whole thing is just a mess. 

Monday, July 4, 2011

شاہ فیصل کی دو رکعتیں


عربوں کی اسرائیل کے ساتھ 1973 میں لڑی گئی مشہورِ زمانہ جنگ یوم کپور یا جنگِ اکتوبر میں امریکہ اگر پسِ پردہ اسرئیل کی امداد نہ کرتا تو مؤرخین لکھتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ فخر کی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں پاکستان نے بھی مقدور بھر حصہ لے کر تاریخ میں پنا نام امر کیا۔ اس جنگ کا مختصر احوال ویکیپیڈیا پر موجود ہے۔
اس جنگ کے دوران شاہ فیصل مرحوم نے ایک دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے تیل کی پیداوار کو بند کردیا تھا، ان کا یہ مشہور قول (ہمارے آباء و اجداد نے اپنی زندگیاں دودھ اور کھجور کھا کر گزار ی تھیں، آج اگر ہمیں بھی ایسا کرنا پڑ جاتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا) اپنی ایک علیٰحدہ ہی تاریخ رکھتا ہے۔

Friday, July 1, 2011

Jinnah and Ruttie - Interesting History ! Did you know ???

Ratan Bai Petit around the time she married Jinnah (founder of Pakistan) in 1918
( such a nice portrait ! )
Born a Parsi, she converted to Islam on her 18th birthday and left her father's mansion with two pets only to marry Jinnah.
Exactly eleven years later she was dead of an overdose of painkillers to treat her abdominal cancer.
Jinnah never married again and died a lonely man.
Known as the nightingale of Bombay, Ruttie died on her 29th birthday on 20 February 1929
How did they meet ?
After his return to India Jinnah chose Bombay for his residence since he no longer had any interest in Karachi after the demise of his mother. His father joined him there.

Wednesday, June 29, 2011

باپ اور بیٹے میں فرق‏


ایک 85 سالہ عمر رسیدہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے ھال کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے قریب آ کر شور مچایا۔
باپ کو نجانے کیا سوجھی، اُٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا، بیٹے یہ کیا چیز ہے؟
بیٹے نے جواب دیا؛ یہ کوّا ہے۔ یہ سُن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔
کُچھ دیر کے بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس کر آیا اور دوبارہ اُس سے پوچھا، بیٹے؛ یہ کیا ہے؟
بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا: یہ کوّا ہے۔
کُچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا: بیٹے یہ کیا ہے؟

Tuesday, June 28, 2011

5 reasons you should ALWAYS hand out a bill


1. You Break it You Bought it

When you sit down to fix a problem that presented as a simple one you are creating a contract. Not a legal contract, but a social one. The computer owner is trusting their computer with you. It's their baby, and you're the doctor. So you sit down, and begin to fix a problem.
In the process, something else breaks. You fixed one thing, but something else goes awry. What's the best part? Neither you nor the user notice it is broken until a day later when they call you to blame you for breaking something else.
"I thought you were going to fix it." They complain.

Monday, June 27, 2011

سیب حرام ہے


یہ ایک شخص کی آب بیتی ہے جو کہتا ہے کہ:
میں مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کر رہا تھا کہ سگریٹ کی ناگوار بدبو نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا، خشوع و خضوع قائم رکھنا تو بعد کی بات تھی بدبو کی شدت سے نماز پوری کرنا بھی محال لگ رہا تھا۔ سلام پھیر کر دیکھا تو قریب ہی ایک آدمی نماز ادا کر رہا تھا۔ سگریٹ نوشی کی کثرت سے اس کے ہونٹ سیاہ پڑ چکے تھے۔ میں نے سوچا یہ نماز سے فارغ ہو چکے تو اس سے بات کرونگا، شاید میری نصیحت سے اس پر کوئی مثبت اثر پڑ جائے۔ لیکن مجھے اس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب اس شخص کے ساتھ بیٹھے ایک نوجوان نے اسکی نماز سے فراغت پر مجھ سے پہلے ہی اس سے گفتگو کرنا شروع کی، سننے کیلئے میں نے بھی کان لگائے تو کچھ اس قسم کی بات چیت ہو رہی تھی:
نوجوان: السلام و علیکم، چچا آپ کون ہیں؟

Thursday, June 23, 2011

what goes around comes around too

One day a man saw a old lady, stranded on the side of the road, but even in the dim light of day, he could see she needed help. So he pulled up in front of her Mercedes and got out. His Pontiac was still sputtering when he approached her.

Even with the smile on his face, she was worried. No one had stopped to help her for the last hour or so. Was he going to hurt her? He didn`t look safe; he looked poor and hungry.

He could see that she was frightened, standing out there in the cold. He knew how she felt. It was that chill which only fear can put in you.

Tuesday, June 21, 2011

IT CONSULTANT -- HILARIOUS.. (JOKE)

Once upon a time there was a shepherd looking after his sheep on the side of a deserted road. Suddenly a brand new Porsche screeches to a halt.

The driver, a man dressed in an Armani suit, Cerutti shoes, Ray-Ban sunglasses, TAG-Heuer wrist-watch, and a Pierre Cardin tie, gets out and asks the Shepherd: If I can tell you how many sheep you have, will you give me one of them?"

The shepherd looks at the young man, and then looks at the large flock of grazing sheep and replies: "Okay."

Friday, June 17, 2011

عادل عدالت کا عادل فیصلہ

عرب سالار قتیبۃ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمرقند کو فتح کر لیا تھا، اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے۔ اور یہ بے اصولی ہوئی بھی تو ایسے دور میں جب زمانہ بھی عمر بن عبدالعزیز کا چل رہا تھا
سمرقند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبۃ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیغامبر کے ذریعہ خط لکھ کر بھجوائی۔
پیغامبر نے دمشق پہنچ کر ایک عالیشان عمارت دیکھی جس میں لوگ رکوع و سجود کر رہے تھے۔ اُس نے لوگوں سے پوچھا: کیا یہ حاکمِ شہر کی رہائش ہے؟ لوگوں نے کہا یہ تو مسجد ہے، تو نماز نہیں پڑھتا کیا؟

Wednesday, June 15, 2011

انگور اور شراب


مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔
اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔ کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر

Tuesday, June 14, 2011

اٹکی ہوئی سوئی


ایک طالبعلم مضمون نویسی جیسے عام مضموں میں فیل ہوا تو سکول کے مہتمم نے اُستاد کو اپنے دفتر میں بلا کر اس طالبعلم کے اس قدر عام اور آسان مضمون میں فیل ہونے کا سبب دریافت کیا۔
اُستاد نے بتایا کہ جناب یہ لڑکا مضمون نویسی میں اصل موضوع سے توجہ ہٹا کر اپنے ذاتی افکار کی طرف لے کر چلا جاتا ہے، اِس لیئے مجبوراً سے فیل کرنا پڑا۔
مہتمم صاحب نے اُستاد سے کہا ٹھیک ہے کوئی مثال تو دو تاکہ مُجھے پتہ چلے کہ تمہاری بات صحیح ہے؟
اُستاد نے بتایا، میں نے اِسے موسم بہار پر مضمون لکھنے کو دیا تو اِس نے کُچھ اِس طرح لکھا: موسم بہار سال کا خوبصورت ترین موسم ہے۔ کھیت کھلیان سر سبز اور ہرے بھرے ہوجاتے ہیں۔ ان کھیت کھیلانوں کے ہرا بھرا ہونے سے اونٹوں کیلئے چارے کی فراہمی بہت ہی آسان ہوجاتی ہے۔ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو اسے صحراء کا سفینہ بھی کہتے ہیں۔ بدو اونٹوں کو نہایت پیار اور مُحبت سے پالتے ہیں۔ اونٹ نا صرف دودھ اور گوشت کے حصول کیلئے پالا جاتا ہے بلکہ اس سے ہر قسم کی بار برداری اور آمدورفت کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے سواری کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ اونٹ ایک پالتو جانور ہے اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس طرح اس طالبعلم نے اصل مضمون اور اسکے عنوان کو بھلا اپنی ساری توانائی اونٹ کی غزل سرائی پر خرچ کی۔

Wednesday, June 8, 2011

ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

اس مضمون کو پڑھتے ہوئے کسی لمحے آپکو اپنی آنکھوں میں نمی سی محسوس ہو تو جہاں اپنی مغفرت کی دعاء کیجئے وہاں اس خاکسار کو بھی یاد کر لیجیئے گا۔

دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”

عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟”

“یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”

عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل ہوا ہے ؟”

وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ”ا ے امیر المؤمنین ۔ اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا”

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ”کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟”

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،

خود عمر رضی اللہ عنہ بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ”معاف کر دو اس شخص کو ”

نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ”نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”

عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ”اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟”

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ”میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے”

ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو”

عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ”

عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ ”میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”

عمر رضی اللہ عنہ ”ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”

ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے”

عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین”

ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟

یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”

وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”

ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”

سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟

نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔۔۔

” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”

” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”

” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”

” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”