Friday, September 23, 2011

ڈراپ سین

میری نظر اس پر اچانک پڑ گئی تھی، ورنہ رنگ و بو کے اس سیلاب میں جہاں لوگ اپنی ہی ہستی میں گم تھے، کسی کو اپنے آپ کا ہوش نہیں تھا- کوئی کسی پر توجہ دینے کیلئے اپنی بے خودی کے شکنجے سے باہر کس طرح آ سکتا تھا، مگر جب میں نے اسے دیکھا تو نظر انداز نہ کر سکا- اس نے اپنے وجود کو اس طرح چھپا رکھا تھا' جیسے کوئی دیکھے گا تو چرا لے گا، جیسے وہ کوئی انمول ہیرا یا قیمتی خزانہ ہو

پھر اچانک اس نے اپنی جگہ سے جنبش کی اور قریب سے گزرتی ہوئی عورت سے قدم ملا کر چلنا شروع کر دیا، لیکن اس عورت نے نفرت بھری نگاہ اس پر ڈالی اور اس سے اتنی دور ہٹ گئی، جیسے وہ کوئی بدبودار شے ہو یا اس سے کوئی بیماری لگنے کا اندیشہ ہو- عورت کے دور ہٹتے ہی اس کے قدم بھی رک گئے اور سر مایوسی سے جھک گیا- کچھ دیر اس کی یہی کیفیت رہی، اس کی حسرت بھری نظریں ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں مگر ہر گزرنے والا اسے نظر انداز کر کے گزر جاتا تھا

اتنے میں ایک فیشن ایبل لڑکی گزرتی ہوئی دکھائی دی- اس نے اپنی جگہ سے چھلانگ لگائی اور اس لڑکی کے ساتھ چلنا شروع کر دیا لیکن لڑکی اسے دھکا دے کر شان بے نیازی سے آگے بڑھ گئی- لوگ لڑکی کے اس عمل پر کھلکھلا اٹھے اور داد دینے لگے- لوگ لڑکی کو دیکھ رہے تھے مگر اس کی سسکی کی آواز میرے علاوہ کوئی نہیں سن رہا تھا- میں نے چاہا کہ آگے بڑھ کر اسے تسلی دوں مگر میرے پہنچنے سے پہلے چند خواتین اسے پاؤں تلے روندتی ہوئی گزر گئیں- میں جب اس کے پاس پہنچا تو اس کی حالت غیر تھی، اس کا جسم اپنوں کے دیئے ہوئے زخموں سے چور چور تھا- ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا وجود اب اس دنیا میں نہیں رہے گا

میں آہستہ آہستہ اس کا پاس پہنچا اور اس سے کہا- "سنئیے!" میری آواز سن کر پہلے تو اس نے اپنے وجود کو سمیٹا اور پھر سر اٹھائے بغیر مردنی آواز میں کہا- جی فرمائیے

میں تمہیں بہت دیر سے دیکھ رہا ہوں- تم نے نہ تو کسی سے بات کی اور نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے، صرف لوگوں کے ساتھ چلنے کی  کوشش کی - مگر ہر ایک نے تمہیں دھتکار دیا- ہر شخص نے تمھارے ساتھ وہ سلوک کیا' جو بدبودار کپڑے پہنے کسی بھکاری کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر میں حیران ہوں کہ اتنی ذلت اٹھانے کے باوجود تمہارے قدموں میں لغزش نہیں آئی اور تم نے ہر مرتبہ اٹھ کر کسی کے ساتھ چلنا شروع کر دیا، خاص کر تمہارا رخ عورتوں اور جوان لڑکیوں کی طرف ہوتا تھا، آخر تم کون ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟

میرے سوالات سن کر اس نے سر اوپر اٹھایا- اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے-اس نے میری طرف دیکھا اور رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا- میں "شرم و حیا" ہوں

No comments:

Post a Comment