Friday, September 30, 2011

کبوتر

کبوتر بڑے کام کا جانور ہے۔ يہ آباديوں ميں جنگلوں ميں، مولوی اسمعيل ميرٹھی کی کتاب ميں، غرض يہ کہ ہر جگہ پايا جاتا ہے ۔کبوتر کی دو بڑی قسميں ہيں۔ نيلے کبوتر۔ سفيد کبوتر، نيلے کبوتر کی بڑی پہچان يہ ہے کہ وہ نيلے رنگ کا ہوتا ہے، سفيد کبوتر بالعموم سفيد ہی ہوتا ہے۔

 کبوتروں نے تاريخ ميں بڑے بڑے کارنامے انجام ديئے ہيں۔ شہزادہ سليم نے مسماۃ مہر النساء کو جب کہ وہ ابھي بے بی نورجہان تھيں۔ کبوتر ہی تو پکڑايا تھا جو اس نے اڑا ديااور پھر ہندوستان کي ملکہ بن گئی۔ يہ فيصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس سارے قصے ميں زيادہ فائدے ميں کون رہا؟ شہزادہ سليم؟ نورجہاں؟ يا وہ کبوتر؟ رعايا کا فائدہ ان دنوں کبھی معرض بحث ميں نہ آتا تھا۔

پرانے زمانے کے لوگ عاشقانہ خط و کتابت کے لئے کبوتر ہی استعمال کرتے تھے۔ اس ميں بڑی مصلحتيں تھيں۔ بعد ميں آدميوں کو قاصد بنا کر بھيجنے کا رواج ہوا تو بعض اوقات يہ نتيجہ نکلا کہ مکتوب اليہ يعنی محبوب قاصد ہی سے شادی کر کے بقيہ عمر ہنسی خوشی بسر کر ديتا تھا۔ چند سال ہوئے ہمارے ملک کی حزب مخالف نے ايک صاحب کو الٹی ميٹم دے کر والی ملک کے پاس بھيجا تھا۔ الٹی ميٹم تو راستے ميں کہيں رہ گيا۔ دوسرے روز ان صاحب کے وزير بننے کی خبر اخباروں ميں آ گئی۔ طوطے کے ہاتھ يہ پيغام بھيجا جاتا تو يہ صورت حال پيش نہ آتی۔
تحریر : ابن انشاء

2 comments: