Thursday, March 22, 2012

بلّی خالہ کا حج

جب سے نورانی بیگم حج کرکے واپس آئیں اور حویلی والوں نے اُن کا شاندار خیرمقدم کیا اُن کی بلّی ہرہ بھی یہ سب تقاریب دیکھ رہی تھی تواچانک اس کے دل میں خیال پیدا ہوا،میں بھی کیوں نہ حج کرکے آؤں تاکہ میری بھی ایسی ہی آؤ بھگت ہو۔ بس اس خیال کا آناتھا کہ ہرہ بلّی نے حج کا ارادہ پکّا کرلیا اور فوراٌ کمرے میں جاکر اپنی بھانجی پوسی رانی کو مطلع کردیا کہ میں حج کو جارہی ہوں۔
پوسی حیران ہوکر بولی خالہ جان آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں،پہلے کبھی آپ نے اپنے ماضی پر بھی غور کیا ہے جس دن آپ نے اپنی پاکبازی کا اعلان کیا اُسی دن ہزاروں چوہے اپنے مقتول بچوں کا ماتم کرتے ہوئے نکل آئیں گے۔ہرہ بلّی نے ڈانٹ کر کہا تم چُپ رہو بس میں نے حج کا ارادہ کرلیاہے اور ظلم سے توبہ کرلی ہے۔پوسی کو یہ اندازپسند نہیںآیا اس نے فوراٌ اپنی ماں کو جو ایک امریکن کے گھر میں انڈے اور توس پر پلتی تھی،فون کردیا کہ وہ ہرہ خالہ سے آکر ملے۔پوسی کی ماں دوڑتی ہوئی اپنی بہن سے ملنے آئی۔ہرہ نے جب بہن کو دیکھا تو گلے لگایا،امریکن بچوں کی خیریت پوچھی ،معلوم ہوا سب کو ٹیکساس میں پیدا ہوتے ہی نیشنلیٹی مل گئی۔اس کے بعد ہرہ نے اپنا پروگرام سنایا۔

Thursday, March 15, 2012

بوڑھا بلوچ

ہمارے کچھ قبائل میں ایک رسم ہے کہ جب کوئی قبیلے کا نیا سردار چنا جاتا ہے تو تمام لوگ مل کر دعا مانگتے ہیں کہ ”یا اللہ قبیلے کو بزدل سردار سے بچانا“ دلیر سردار اگر ظلم بھی کر لے تو لوگ بخوشی برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ وہ قبیلے کو دوسروں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دیتا لیکن بزدل سردار ہمیشہ قبیلے کو ذلت اور رسوائی تک لے جاتا ہے‘ اس لئے باغیرت لوگ ذلت و رسوائی سے پہلے موت گلے لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہادر آدمی ہمیشہ ذلت کی زندگی کی نسبت بہادری کی موت پر فخر کرتا ہے۔ٹیپو سلطان جیسا حکمران بھی یہ کہے بغیرنہ رہ سکا کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے “ پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک نے بھی اپنے قبیلے کو یہی درس دیا ”وہ قوم قوم ہی نہیں جو اپنی عزت کیلئے مرنا نہیں جانتی۔“ مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا جو ہماری قومی غیرت کیلئے چیلنج ثابت ہوا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی لیکن کسی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ بدنامی اور بے شرمی کی کالک تمام قوم کے چہرے پر ملی گئی۔ تاریخ میں شاید یہ پہلی شکست تھی جو مسلمانوں نے ایک عورت سے کھائی تھی۔ غلطی جس کی بھی تھی اس کا فیصلہ تاریخ نے کر دیا ہے۔ بدنامی پوری قوم اور ہماری آنے والی نسلوں کے نام لکھ دی گئی ہے۔ اس بدنامی پر ہر پاکستانی دکھی تھااور آج تک دکھی ہے۔ ہمارے ایک بلوچ بزرگ سردار کا ردِ عمل توجہ کا حامل ہے جو قارئین کے گوش گزار ہے۔

Saturday, March 10, 2012

رواجی ذہن

الیس ہوے (Elisa Howe) امریکہ کے مشہور شہر مسچوچسٹ کا ایک معمولی کاریگر تھا- وہ ١٨١٩ء میں پیدا ہوا اور صرف ٤٨ سال کی عمر میں ١٨٦٧ء میں اس کا انتقال ہو گیا- مگر اس نے دنیا کو ایک ایسی چیز دی جس نے کپڑے کی تیاری  میں ایک انقلاب پیدا کر دیا- یہ سلائی مشین تھی جو اس نے ١٨٤٥ء میں ایجاد کی-
الیس ہوے نے جو مشین بنائی اس کی سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے لئے سوئی کی جڑ کی طرف چھید ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے- ہزاروں برس سے انسان سوئی کی جڑ میں چھید کرتا آ رہا ہے- اس لئے الیس ہوے نے سلائی کی مشین تیار کی تو اس میں بھی عام رواج کے مطابق اس نے جڑ کی طرف چھید بنایا- اس کی وجہ سے اس کی مشین ٹھیک کام نہیں کرتی تھی- شروع میں وہ اپنی مشین سے صرف جوتا سی سکتا تھا، کپڑے کی سلائی اس مشین پر ممکن نہ تھی-
الیس ہوے ایک عرصہ تک اسی ادھیڑ بن میں رہا مگر اس کی سمجھ میں اس کا کوئی حل نہیں آتا تھا- آخر کار اس نے ایک خواب دیکھا- اس خواب نے اس کا مسئلہ حل کر دیا-