Thursday, March 15, 2012

بوڑھا بلوچ

ہمارے کچھ قبائل میں ایک رسم ہے کہ جب کوئی قبیلے کا نیا سردار چنا جاتا ہے تو تمام لوگ مل کر دعا مانگتے ہیں کہ ”یا اللہ قبیلے کو بزدل سردار سے بچانا“ دلیر سردار اگر ظلم بھی کر لے تو لوگ بخوشی برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ وہ قبیلے کو دوسروں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دیتا لیکن بزدل سردار ہمیشہ قبیلے کو ذلت اور رسوائی تک لے جاتا ہے‘ اس لئے باغیرت لوگ ذلت و رسوائی سے پہلے موت گلے لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہادر آدمی ہمیشہ ذلت کی زندگی کی نسبت بہادری کی موت پر فخر کرتا ہے۔ٹیپو سلطان جیسا حکمران بھی یہ کہے بغیرنہ رہ سکا کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے “ پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک نے بھی اپنے قبیلے کو یہی درس دیا ”وہ قوم قوم ہی نہیں جو اپنی عزت کیلئے مرنا نہیں جانتی۔“ مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا جو ہماری قومی غیرت کیلئے چیلنج ثابت ہوا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی لیکن کسی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ بدنامی اور بے شرمی کی کالک تمام قوم کے چہرے پر ملی گئی۔ تاریخ میں شاید یہ پہلی شکست تھی جو مسلمانوں نے ایک عورت سے کھائی تھی۔ غلطی جس کی بھی تھی اس کا فیصلہ تاریخ نے کر دیا ہے۔ بدنامی پوری قوم اور ہماری آنے والی نسلوں کے نام لکھ دی گئی ہے۔ اس بدنامی پر ہر پاکستانی دکھی تھااور آج تک دکھی ہے۔ ہمارے ایک بلوچ بزرگ سردار کا ردِ عمل توجہ کا حامل ہے جو قارئین کے گوش گزار ہے۔

No comments:

Post a Comment