Saturday, September 8, 2012

مقبول حج


ادھر حج کا فریضہ ادا ہوا ادھر معلمین حجاج کو باری باری ایئرپورٹ لانے کے عمل  (بلکہ حجاج کو ایئرپورٹ پر  ڈھونے کے عمل) میں لگ جاتے ہیں۔ اور حجاج بیچارے ادھر، اور  ان کے لواحقین ادھر،  ان سے ملنے کو بے قرار،  انتظار کی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورتحال  ایک عرب  ملک سے تعلق رکھنے والے حاجی سعید کے ساتھ پیش آرہی تھی جو ایئرپورٹ پر  بیٹھے اپنے جہاز کا انتظار کر رہےتھے۔  ان کے ساتھ والی کرسی کو خالی پاکر ایک  اور حاجی صاحب آن  بیٹھے۔ ایک دوسرے کو سلام کرنے بعد، ایک دوسرے کے نام ،   ایک دوسرے کی شہریت اور صحت و تندرستی بلکہ ایک دوسرے کا  حال احوال بھی پوچھ بیٹھے۔ یہ نو وارد کچھ زیادہ ہی گرم جوش دکھائی دیتا تھا جس کا دل ان چند باتوں سے نہیں بھرا تھا اور وہ مزید کچھ کہنے سننے کو بے تاب دکھائی دے رہا تھا۔ تاکہ گفتگو کا سلسلہ مزید چل نکلے۔
اس نے خود ہی اپنے بارے میں بتانا شروع کیا کہ:
برادر سعید، میں پیشے کے لحاظ سے ایک ٹھیکیدار ہوں۔ اس سال مجھے ایک بہت بڑا ٹھیکہ مل گیا، یہ ٹھیکہ تو گویا میری زندگی کے  حاصل جیسا تھا۔ اور میں نے نیت کر لی کہ اللہ کی اس  نعمت کے شکرانے کے طور پر میں اس سال دسویں بار فریضہ حج ادا کرونگا۔  بس اپنی منت کو پورا کرنے کیلئے میں نے  اپنا حج داخلہ کرایا۔ ادھر آ کر  بھی خوب صدقات  دیئے اور  خیراتیں  کیں تاکہ اللہ میرے حج کو قبول کرلے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں دسویں بار حاجی بن گیا ہوں۔
سعید صاحب نے سر کو ہلا کر گفتگو میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا  اور مسنون طریقے سے
حج کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا
حجا مبرورا ،  و سعیا مشکورا،  و ذنبا مغفورا ان شاء اللہ
(اللہ کرے آپ کا حج مقبول ہو، آپ کی سعی مشکور ہو اور آپ کے گناہ معاف کر دیئے جائیں)
اس شخص نے مسکرا کر سعید صاحب  کی نیک تمناؤں کا شکریہ ادا کیا اور کہا:
اللہ تبارک و تعالیٰ سب کے حج قبول کرے، تو سعید صاحب، کیا آپ کے حج کا بھی کوئی خاص قصہ ہے ؟
سعید نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا
ہاں جی، میرے حج کے پیچھے بھی ایک طویل قصہ ہے مگر میں  یہ قصہ سنا کر آپ کے سر میں درد نہیں کرنا چاہتا۔
یہ سن کر وہ شخص ہنس پڑا اور کہا؛

Friday, August 3, 2012

اسلامی سپہ سالار( حضرت خالد بن ولید) کا تاریخی فیصلہ


رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے نے ہر طرف اپنے سائے پھیلائے ہوئے تھے۔ ایسے میں ایک شخص قلعے کی دیوار سے رسا لٹکائے نیچے اتر رہا تھا۔ وہ جس قدر اپنی منزل کے قریب آرہا تھا، اسی قدر طرح طرح کے اندیشے اس کے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر رہے تھے۔
“کہیں ایسا نہ ہو کہ قلعے والے مجھے دیکھ لیں اور تیر مار کر راستے ہی میں میرا قصہ تمام کر دیں۔۔۔۔ کہیں نیچے اترتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میرے خون سے رنگین نہ ہو جائیں۔”
یہ تھے وہ خدشات جو اس کے دل و دماغ میں شدت سے گونج رہے تھے۔ پھرجوں ہی اس نے زمین پر قدم رکھا مجاہدین نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس کایہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا کہ مسلمان مجاہد رات کے اندھیرے میں قلعے سے بے خبر ہوں گے۔
اترنے والے نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ اسے لشکر کے سپہ سالار کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ وہ سپہ سالار کون تھے؟ وہ اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔

Friday, July 6, 2012

سلالہ واقعہ اور نیٹو سپلائی | کولیکشن

سلالہ واقعہ اور نیٹو سپلائی | کولیکشن

دوستو! آج خلاف معمول کوئی واقعہ یا قصہ نہیں بیان کر رہا بلکہ اپنے جذبات کو کچھ اشعار میں تحریر کر رہا ہوں- کیا کریں کہ معامله ہی کچھ ایسا ہے کہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، چپ رہ بھی نہیں سکتے- اور الفاظ ہیں کہ زبان کا ساتھ نہیں دیتے- ...

Sunday, June 10, 2012

اک ماں کی اپنی بیٹی کیلئیے 10 نصیحتیں | کولیکشن

عرب کی ایک مشہور عالم ،ادیبہ کی دس وصیتیں، جو حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف رحمتہ اللہ علیہ لدھیا نوی صاحب کی کتاب تحفہ دلہن میں لکھی ہیں۔
١- ”میری پیاری بیٹی ،میری آنکھو ں کی ٹھنڈک ،شوہر کے گھر جا کر قناعت والی زندگی گزارنے کا اہتمام کرنا۔ جو دال روٹی ملے اس پر راضی رہنا ، جو روکھی سوکھی شوہر کی خوشی کے ساتھ مل جا ئے وہ اس مرغ پلا ﺅ سے بہتر ہے جو تمہارے اصرار کرنے پر اس نے نا راضگی سے دیا ہو ۔
٢- میری پیاری بیٹی ، اس با ت کا خیال رکھنا کہ اپنے شوہر کی با ت کو ہمیشہ توجہ سے سننا اور اسکو اہمیت دینا اور ہر حال میں ان کی بات پر عمل کرنے کی کو شش کرنا اسطرح تم ان کے دل میں جگہ بنا لو گی کیونکہ اصل آدمی نہیں آدمی کا کام پیارا ہو تا ہے ۔

Wednesday, May 30, 2012

آقا اور غلام


خواجہ حسن بصری رحمة اللہ تعالٰی علیہ نے بصرہ میں ایک غلام خریدا، وہ غلام بھی ولی اللہ، صاحبِ نسبت اور تہجد گذار تھا-
حضرت حسن بصری نے اس سے پوچھا کہ اے غلام! تیرا نام کیا ہے؟
اس نے کہا کہ حضور! غلاموں کا کوئی نام نہیں ہوتا، مالک جس نام سے چاہے پکارے،
آپ نے فرمایا اے غلام! تجھ کو کیسا لباس پسند ہے؟
اس نے کہا کہ حضور! غلاموں کا کوئی لباس نہیں ہوتا جو مالک پہنا دے وہی اس کا لباس ہوتا ہے،
پھر انہوں نے پوچھا کہ اے غلام! تو کیا کھانا پسند کرتا ہے؟

Sunday, May 13, 2012

قیمت


پرانے زمانے میں بھی بادشاہوں کو یہ خوش فہمی ہوتی تھی کہ وہ عقل کل ہیں- ایسے ہی ایک بادشاہ محض اس وجہ سے کامیابی سے حکومت کر رہا تھا کہ اسے ایک وزیر با تدبیر میسر تھا- جو اپنی معاملہ فہمی اور دوراندیشی سے بادشاہ کی حماقتوں کو چھپا لیتا تھا، مگر کب تک؟؟… ایک دن خود وزیر با تدبیر بھی بادشاہ سلامت کے نرغے میں آ ہی گیا- بادشاہ کے دماغ میں نہ جانے کیا بات آئی کہ انہوں نے وزیر باتدبیر کو بلا کر اس کے سامنے یہ تین سوال رکھے:
١- زمین کے وسطی مقام کی نشاندھی کی جائے-
٢- ہمیں بتایا جائے کہ ہم زمین کا چکر کتنی دیر میں لگا سکتے ہیں؟
٣- ایک عظیم قومی سرمایہ ہونے کے ناطے ہماری قیمت کا تخمینہ لگایا جائے-

Wednesday, April 18, 2012

پرچے اور تماشے

آج کل میں اپنے آفس بوائے کو چوتھی دفعہ میٹرک کروا رہا ہوں اور یقین کامل ہے کہ یہ سلسلہ مزید پانچ چھ سال تک جاری رہے گا، ہر دفعہ وہ پوری تیاری سے پیپر دیتا ہے اور بفضل خدا، امتیازی نمبروں سے فیل ہوتا ہے- اس دفعہ بھی پیپرز میں وہ جو کچھ لکھ آیا ہے وہ یقیناتاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا- اسلامیات کے پرچے میں سوال آیا کہ “مسلمان کی تعریف کریں؟” موصوف نے جواب لکھا کہ “مسلمان بہت اچھا ہوتا ہے، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کام ہے، وہ ہوتا ہی تعریف کے قابل ہے، اس کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے، جو اس کی تعریف نہیں کرتا وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے، میں بھی اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اس کی تعریف کرتا رہتا ہوں، مسلمان کی تعریف کرنے سے بڑا ثواب ملتا ہے، ہم سب کو ہر وقت مسلمان کی تعریف کرتے رہنا چاہیے”-
اسی طرح مطالعہ پاکستان المعروف “معاشرتی علوم” کے پرچے میں سوال آیا کہ پاکستان کی سرحدیں کس کس ملک کے ساتھ لگتی ہیں، موصوف نے پرے اعتماد کے ساتھ لکھا کہ “پاکستان کے شمال میں امریکہ، مشرق میں افریقہ، مغرب میں دبئی اور جنوب میں انگلستان لگتا ہے”-
سائنس کے پرچے میں سوال تھا کہ “الیکٹران اور پروٹان میں کیا فرق ہے؟” عالی مرتبت نے پورے یقین کے ساتھ جواب لکھا کہ “کچھ زیادہ فرق نہیں، سائنسدانوں کو دونوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے”-

Tuesday, April 10, 2012

جسم کا اہم ترین حصہ

میری ماں مجھ سے اکثر پوچھتی تھی کہ “بتاؤ! جسم کا اہم ترین حصہ کونسا ہے؟”
میں سال ہا سال اس کے مختلف جواب یہ سوچ کر دیتا رہا کہ شاید اب کے میں صحیح جواب تک پہنچ گیا ہوں-
جب میں چھوٹا تھا تو میرا خیال تھا کہ آواز ہمارے لیۓ بہت ضروری ہے، لہذا میں نے کہا ” امی! میرے کان”
انہوں نے کہا “نہیں- دنیا میں بہت سے لوگ بہرے ہیں- تم مزید سوچو میں تم سے پھر پوچھوں گی-”
بہت سے سال گزرنے کے بعد انہوں نے پھر پوچھا!

Thursday, March 22, 2012

بلّی خالہ کا حج

جب سے نورانی بیگم حج کرکے واپس آئیں اور حویلی والوں نے اُن کا شاندار خیرمقدم کیا اُن کی بلّی ہرہ بھی یہ سب تقاریب دیکھ رہی تھی تواچانک اس کے دل میں خیال پیدا ہوا،میں بھی کیوں نہ حج کرکے آؤں تاکہ میری بھی ایسی ہی آؤ بھگت ہو۔ بس اس خیال کا آناتھا کہ ہرہ بلّی نے حج کا ارادہ پکّا کرلیا اور فوراٌ کمرے میں جاکر اپنی بھانجی پوسی رانی کو مطلع کردیا کہ میں حج کو جارہی ہوں۔
پوسی حیران ہوکر بولی خالہ جان آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں،پہلے کبھی آپ نے اپنے ماضی پر بھی غور کیا ہے جس دن آپ نے اپنی پاکبازی کا اعلان کیا اُسی دن ہزاروں چوہے اپنے مقتول بچوں کا ماتم کرتے ہوئے نکل آئیں گے۔ہرہ بلّی نے ڈانٹ کر کہا تم چُپ رہو بس میں نے حج کا ارادہ کرلیاہے اور ظلم سے توبہ کرلی ہے۔پوسی کو یہ اندازپسند نہیںآیا اس نے فوراٌ اپنی ماں کو جو ایک امریکن کے گھر میں انڈے اور توس پر پلتی تھی،فون کردیا کہ وہ ہرہ خالہ سے آکر ملے۔پوسی کی ماں دوڑتی ہوئی اپنی بہن سے ملنے آئی۔ہرہ نے جب بہن کو دیکھا تو گلے لگایا،امریکن بچوں کی خیریت پوچھی ،معلوم ہوا سب کو ٹیکساس میں پیدا ہوتے ہی نیشنلیٹی مل گئی۔اس کے بعد ہرہ نے اپنا پروگرام سنایا۔

Thursday, March 15, 2012

بوڑھا بلوچ

ہمارے کچھ قبائل میں ایک رسم ہے کہ جب کوئی قبیلے کا نیا سردار چنا جاتا ہے تو تمام لوگ مل کر دعا مانگتے ہیں کہ ”یا اللہ قبیلے کو بزدل سردار سے بچانا“ دلیر سردار اگر ظلم بھی کر لے تو لوگ بخوشی برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ وہ قبیلے کو دوسروں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دیتا لیکن بزدل سردار ہمیشہ قبیلے کو ذلت اور رسوائی تک لے جاتا ہے‘ اس لئے باغیرت لوگ ذلت و رسوائی سے پہلے موت گلے لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہادر آدمی ہمیشہ ذلت کی زندگی کی نسبت بہادری کی موت پر فخر کرتا ہے۔ٹیپو سلطان جیسا حکمران بھی یہ کہے بغیرنہ رہ سکا کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے “ پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک نے بھی اپنے قبیلے کو یہی درس دیا ”وہ قوم قوم ہی نہیں جو اپنی عزت کیلئے مرنا نہیں جانتی۔“ مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا جو ہماری قومی غیرت کیلئے چیلنج ثابت ہوا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی لیکن کسی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ بدنامی اور بے شرمی کی کالک تمام قوم کے چہرے پر ملی گئی۔ تاریخ میں شاید یہ پہلی شکست تھی جو مسلمانوں نے ایک عورت سے کھائی تھی۔ غلطی جس کی بھی تھی اس کا فیصلہ تاریخ نے کر دیا ہے۔ بدنامی پوری قوم اور ہماری آنے والی نسلوں کے نام لکھ دی گئی ہے۔ اس بدنامی پر ہر پاکستانی دکھی تھااور آج تک دکھی ہے۔ ہمارے ایک بلوچ بزرگ سردار کا ردِ عمل توجہ کا حامل ہے جو قارئین کے گوش گزار ہے۔

Saturday, March 10, 2012

رواجی ذہن

الیس ہوے (Elisa Howe) امریکہ کے مشہور شہر مسچوچسٹ کا ایک معمولی کاریگر تھا- وہ ١٨١٩ء میں پیدا ہوا اور صرف ٤٨ سال کی عمر میں ١٨٦٧ء میں اس کا انتقال ہو گیا- مگر اس نے دنیا کو ایک ایسی چیز دی جس نے کپڑے کی تیاری  میں ایک انقلاب پیدا کر دیا- یہ سلائی مشین تھی جو اس نے ١٨٤٥ء میں ایجاد کی-
الیس ہوے نے جو مشین بنائی اس کی سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے لئے سوئی کی جڑ کی طرف چھید ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے- ہزاروں برس سے انسان سوئی کی جڑ میں چھید کرتا آ رہا ہے- اس لئے الیس ہوے نے سلائی کی مشین تیار کی تو اس میں بھی عام رواج کے مطابق اس نے جڑ کی طرف چھید بنایا- اس کی وجہ سے اس کی مشین ٹھیک کام نہیں کرتی تھی- شروع میں وہ اپنی مشین سے صرف جوتا سی سکتا تھا، کپڑے کی سلائی اس مشین پر ممکن نہ تھی-
الیس ہوے ایک عرصہ تک اسی ادھیڑ بن میں رہا مگر اس کی سمجھ میں اس کا کوئی حل نہیں آتا تھا- آخر کار اس نے ایک خواب دیکھا- اس خواب نے اس کا مسئلہ حل کر دیا-

Saturday, February 25, 2012

حسنِ نیت اور تکبر

بنی اسرائیل میں ایک شخص بڑا ہی نیک، عابد اور زاہد تھا- سب لوگوں میں اس کی بڑی عزت تھی- اس کی نیکی اور پارسائی کا بڑا ہی چرچا تھا- اسی علاقے میں ایک اور شخص تھا- لوگ اسے بہت بُرا انسان سمجھتے تھے- وہ تھا ہی ایسا بد عمل اور بدکردار، کوئی بھی اسے اچھا نہیں سمجھتا تھا-
ایک روز اس گناہگار شخص نے دیکھا کہ وہ نیکوکار ایک میدان میں بیٹھا ہوا ہے- ہر طرف تیز دھوپ پھیلی ہوئی ہے مگر اللہ کے اس نیک بندے پر ایک بادل کے ٹکڑے نے سایہ کر رکھا ہے-

Monday, February 20, 2012

سب سے بڑی سخاوت

ایک آدمی نے حاتم طائی سے پوچھا: ”اے حاتم! کیا سخاوت میں کوئی تجھ سے آگے بڑھا ہے؟ …”
حاتم نے جواب دیا: ہاں!… قبیلہ طے کا ایک یتیم بچہ مجھ سے زیادہ سخی نکلا جس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ دوران سفر میں شب بسری کے لیۓ ان کے گھر گیا، اس کے پاس دس بکریاں تھیں، اس نے ایک ذبح کی، اس کا گوشت تیار کیا اور کھانے کیلئے مجھے پیش کر دیا- اس نے کھانے کے لیۓ مجھے جو چیزیں دیں ان میں مغز بھی تھا- میں نے اسے کھایا تو مجھے پسند آیا- میں نے کہا: “واہ سبحان اللہ! کیا خوب ذائقہ ہے”

سب سے بڑی سخاوت

ایک آدمی نے حاتم طائی سے پوچھا: ”اے حاتم! کیا سخاوت میں کوئی تجھ سے آگے بڑھا ہے؟ …”
حاتم نے جواب دیا: ہاں!… قبیلہ طے کا ایک یتیم بچہ مجھ سے زیادہ سخی نکلا جس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ دوران سفر میں شب بسری کے لیۓ ان کے گھر گیا، اس کے پاس دس بکریاں تھیں، اس نے ایک ذبح کی، اس کا گوشت تیار کیا اور کھانے کیلئے مجھے پیش کر دیا- اس نے کھانے کے لیۓ مجھے جو چیزیں دیں ان میں مغز بھی تھا- میں نے اسے کھایا تو مجھے پسند آیا- میں نے کہا: “واہ سبحان اللہ! کیا خوب ذائقہ ہے”

Monday, February 13, 2012

اچانک

بے ارادہ میری نظر اس نوجوان پر پڑی- اس وقت وہ گلی کے نکڑ پر کھڑا مجھے تک رہا تھا- میری نظرپڑتے ہی وہ وہاں سے غائب ہو گیا- پہلے تو میں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی- اگلے ہی لمحے یہ بات مجھے کھٹکی کہ دیکھتے ہی یوں غائب کیوں ہو گیا- شاید اب تک وہاں میرا ہی منتظر تھا- کہیں میری ٹوہ میں تو نہیں لگا ہوا تھا- یہ سب سوچ کر میرا اعتماد لڑکھڑانے لگا- مجھے گھبراہٹ سی ہونے لگی-

Sunday, February 5, 2012

متأثر کن شخصیت

کہتے ہیں ایک بچے نے کچھوا پال رکھا تھا، اُسے سارا دن کھلاتا پلاتا اور اُسکے ساتھ کھیلتا تھا۔سردیوں کی ایک یخ بستہ شام کو بچے نے اپنے کچھوے سے کھیلنا چاہا مگر کچھوا سردی سے بچنے اور اپنے آپ کو گرم رکھنے کیلئے اپنے خول میں چُھپا ہوا تھا۔بچے نے کچھوے کو خول سے باہر آنے پر آمادہ کرنے کی بُہت کوشش کی مگر بے سود۔ جھلاہٹ میں اُس نے ڈنڈا اُٹھا کر کچھوے کی پٹائی بھی کر ڈالی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔بچے نے چیخ چیخ کر کچھوے کو باہر نکنے پر راضی کرنا چاہامگر کچھوا سہم کر اپنے خول میں اور زیادہ دُبکا رہا۔

Click to Read more »

Tuesday, January 31, 2012

د س سوال اور ایک جواب

١. کیا آپ سے پوچھا گیا تھا کہ آپ ایشیا  افریقہ یورپ  یا امریکا میں کہاں پیدا ہوں گے؟ آپ کے ہونٹ،  ناک، آنکھیں اور رنگ کیسا ہوگا؟ آپ امریکا میں نیگرو ہوں گے یا  افریقہ میں گورے ہونگے؟
٢. کیا آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کے  ماں باپ کون  ہوں گے؟ شادی شدہ ہوں گے؟ یا اس کے برعکس آپ کی پرورش ماں کی گود میں ہوگی؟ یا ماما کی ؟
٣.  کیا آپ سے پوچھا گیا کہ آپ سکھ ہوں گے ہندو یا عیسائی ہوں گے یا کسی مسلمان ماڈرن گھرانےمیں پیدا ہوں گے یا دیندار والدین کی گود پائیں گے؟