مندرجہ ذیل قصہ ایک نہایت ہی معتبر شخص نے سنایا، کہتا ہے کہ یہ قصہ اسکے والد کے زمانے میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے ایک نوجوان کا ہے، میں آپکو اسی نوجوان کی زبانی سناتا ہوں۔
قبائلی رسم و رواج کے مطابق میں دور سے ہی ہاتھ اُٹھا کر اور بلند آواز سے سلام کرتے ہوئے اس پر وقار شخص کی طرف بڑھ رہا تھا، جی ہاں، اپنے قبیلے کے شیخ کی طرف، جو دوپہر ڈھلتے ہی اپنے گھر کی دیوار کے ساتھ بنی منڈھیر پر اونی چٹائی بچھا ئے، چائے اور عربی قہوہ کی کیتلیاں اور تھرماس پاس رکھ کر آئے گئے مہمانوں کا استقبال کرتا تھا۔ یہ شیخ صاحب کا روز کا معمول تھا۔ اُسکی یہ محفل عصر سے پہلے سجتی تھی اور مہمانوں کے آنے جانے کا سلسلہ عشاء کے بعد تک چلتا تھا۔
میں شیخ صاحب سے مصافحہ کرکے ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ حتی المقدور اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہوئے عرض کیا: اے شیخ میں آپ سے مشورہ کرنے کیلئے حاضر ہوا ہوں۔ پچھلے ایک سال سے شادی کے بعد سے اب تک میرا نہایت ہی برا حال ہے۔
شیخ صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اور گویا ہوئے: کیوں برخوردار، ایسی کیا بات ہے؟ الحمد للہ مجھے تو تم اچھے بھلے نظر آ رہے ہو۔
میں نے اپنے سر کو دائیں بائیں انکار میں ہلاتے ہوئے کہا: نہیں شیخ صاحب، میں ٹھیک نہیں ہوں، میری بیوی، میری بیوی ایک پاگل ہے۔
کام سے تھکا ماندہ شام کو گھر میں آرام کی خاطر لوٹتا ہوں ہوں تو وہ پھٹ پڑنے کیلئے تیار، ڈھاڑتی ہوئی میرے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔
دیر سے کیوں آئے ہو؟
میں نے جو چیزیں منگوائی تھیں کیوں نہیں لائے؟
یہ کیا گندی چیزیں لے کر آ گئے ہو؟
خریداری کا سلیقہ نہیں ہے تمہیں؟
آج جلدی کس لئے آ گئے ہو؟
شام سے صبح تک تمہیں برداشت کرنا ہوتا ہے وہ کیا کافی نہیں ہوتا؟
شیخ صاحب، میں نے بہت صبر کیا ہے مگر اب تو میں بھی اُس سے ہر بار یہی پوچھتا ہوں کہ کیا عذاب کی لغت میں کوئی ایسی بد زبانی یا ایسا طعنہ بچا ہے جو تو نے مجھے نہ مارا ہو! تیری بد زبانی اور بے ہودگی نے میری زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔
شیخ صاحب، اُسکی ایک بات کے جواب میں مجھے دو سنانی پڑتی ہیں مگر اُسے نہ قائل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی خاموش۔کئی بار لمحے تو کئی بار گھنٹے اس حال میں گزرتے ہیں، اور پھر گھر میں گزرا باقی کا وقت اپنے بال نوچتے یا ناخن چباتے گزرتا ہے۔
لیکن شیخ صاحب: اب میرا ایسی صورتحال سے دل بھر گیا ہے اور مجھے کراہت ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ پاگل عورت میرے ہاتھوں قتل ہو، میں اُسے طلاق دینا چاہتا ہوں۔
شیخ صاحب نے سر کو ہلاتے ہوئے کہا: بیٹے، میں تیری مصیبتوں کا سبب جان گیا ہوں۔ میرے پاس تیرے لئے اسکا ایک علاج ہے، اور اس سے تیرے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
میں نے تعجب سے شیخ صاحب کو کہا: کیا ہے ایسا علاج، جس سے اُسکا پاگل پن ختم ہو جائے گا؟ لیکن میں اُس میں کوئی رغبت باقی نہیں پاتا، میں اُسے طلاق دیکر چھٹکارا پانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی علاج ہے تو آس کیلئے دیجیئے، میرے لئے نہیں۔
شیخ صاحب نے مسکرا کر اپنے ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا، بیٹے اللہ پر بھروسہ رکھو، آؤ عصر کی نماز ادا کرتے آئیں، اسکے بعد میں تمہیں علاج بتاؤنگا۔
نماز سے واپسی پر مجھے واپس بیٹھنے کا اشارہ کرتے شیخ صاحب اپنے گھر تشریف لے گئے۔ واپسی پر ہاتھ میں ایک چھوٹی سی بوتل تھامے نمودار ہوئے، بوتل کا منہ ایک ڈھکن سے مضبوتی کے ساتھ بند تھا۔۔۔
میرے قریب بیٹھتے ہوئے مجھے مخاطب ہوئے: یہ لو میرے بیٹے، یہ ہے وہ علاج جسکا میں نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا۔اس علاج کو تم نے اپنے پاس رکھنا ہے، جب اپنے گھر لوٹو تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے، بسم اللہ پڑھ کر اس بوتل میں سے ایک ڈھکنا بھر کر منہ میں ڈالنا ہے مگر اِسے آدھا گھنٹہ نہ تو حلق سے نیچے آتارنا ہے اور ہی نہ پینا ہے۔ہاں مگر آدھے گھنٹے کے بعد پی لینے میں کوئی حرج نہیں۔اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تم یہ علاج مسلسل بغیر کسی ناغہ کے دس دن تک کرو۔ اور دس دن کے بعد اللہ کے حکم سے تمہاری بیوی ویسی ہی بن جائے گی جس طرح کی تم خواہش کرتے ہو۔
میں نے اپنے سر کو حیرت کے ساتھ جھٹکتے ہوئے شیخ صاحب سے کہا: ٹھیک ہے میں ایسا ہی کرونگا جس طرح آپ حکم دے رہے ہیں، میری اللہ سے دعاء ہے کہ وہ میری بیوی کے پاگل پن کو اس دوا سے شفاء دیدے جسکو پیوں گا تو میں مگر اثر اس پر ہونا ہے۔
اور دوسرے دن، گھر میں داخل ہونے سے قبل، میں نے جیب سے بوتل نکالی، بسم اللہ پڑھ کر ایک ڈھکنا بھر مقدار سائل کو منہ میں ڈالا، آپکی معلومات کی خاطر عرض کردوں کہ میں یہ جان کر حیرت زدہ سا تھا کہ سائل کا ذائقہ پانی سے زیادہ دور نہیں تھا۔ نہ کوئی رنگ، نہ ہی بو اور نہ کوئی مزا۔
شیخ صاحب کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے ہوئے، منہ کو سختی سے بند کئے، میں گھر میں داخل ہو کمرے میں جانے کیلئے کچن کے سامنے سے ہوتا ہوا گزر ہی رہا تھا کہ میری بیوی کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ حسب توقع دائیں آنکھ اوپر اور بائیں نیچے کئے، اس سے پہلے کہ میں سامنے سے ہٹتا، دانتوں کو پیستے ہوئے بولی: آخر کار آ گئے ہیں آپ جناب! لائیے کدھر ہیں وہ چیزیں جو میں نے منگوائی تھیں! یا ہمیشہ کی طرح میرا کہا ہوا تمہارے سر کے اوپر سے گزر گیا تھا اور خالی ہاتھ واپس آ گئے ہو؟ لاؤ مجھے دو، میں دیکھوں تو کیا لائے ہو؟
اور پھر اُس نے میری خاموشی پر حیرت سے میرے چہرے کو دیکھا، ایک انگلی کو خونخوار طریقے سے میرے چہرے کے سامنے ہلاتے ہوئے بولی: زبان حلق میں پھنس گئی ہے کیا؟
موقع ملتے ہی میں کمرے کی طرف دوڑا، تاکہ جا کر علاج کا آدھا گھنٹہ گزاروں۔ حالانکہ مجھے پورا یقین تھا کہ شیخ صاحب کے علاج کا میری بیوی پر کوئی فائدہ نہیں ہونا ۔خاص طور پر آج تو بے اثر ہی رہا تھا۔
دوسرے دن گھر داخل ہونے سے قبل پھر وہی علاج دہرایا، بوتل میں سے ڈھکنا بھر محلول بسم اللہ پڑھ کر منہ میں ڈال کر گھر میں داخل ہو گیا، تا کہ میری بیوی اپنی مغلظات میرے سر پر مارے۔ اور میں اپنے ہونٹ سختی سے بند کیئے علاج کرتا رہوں۔
آج ذرا خیریت رہی، گھر والی بغور میرے چہرے کو دیکھتی رہی، شاید میری خاموشی کا سبب جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔چند لمحے خاموش رہ کر آہستگی سے بولی: کھانا کھاؤ گے، لاؤں؟
*
*
*
*
*
(اور پھر 5 دنوں کے بعد)
شیخ صاحب کے پاس بیٹھنے سے قبل، میں نے انہیں سلام کیا۔ اور پھر پوچھا: شیخ صاحب، بوتل میں کیا ڈالا تھا آپ نے؟
شیخ صاحب میرے چہرے کو دیکھ کر مسکرائے اور بولے: بیٹے پہلے اپنی سناؤ، میرے علاج نے کوئی اثر بھی دکھایا ہے یا نہیں؟
میں نے اپنا سر اوپر سے نیچے کی طرف ہلاتے ہوئے کہا: شیخ صاحب، یہ کچھ ہوا ہے ان دنوں میں اور یہ صورتحال ہے اب تک کی۔ دو دن ہو گئے ہیں میری بیوی تو بالکل ویسی بن گئی ہے جس طرح دلہن بن کر آئی تھی۔ شیخ صاحب، اب تو بتائیے، کیا ڈالا تھا آپ نے اس بوتل میں؟ (میں اس وقت تک اس بوتل کا نام – اکسیر جنونِ نسواں – رکھ چکا تھا)۔
شیخ صاحب نے بولنے سے پہلے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بولے: بیٹے، اس بوتل میں، میں نے تمہیں پانی ڈال کر دیا تھا، اپنے گھر میں رکھے گھڑے میں سے۔
میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، میں نے تعجب سے کہا: پانی؟ صرف پانی؟ کیا اس بوتل میں کوئی دوا نہیں تھی، صرف پانی تھا؟ اچھا برکت کیلئے کم از کم آپ نے اپنا لعاب تو ضرور ڈالا ہو گا اس میں، آخر میری بیوی کو کس طرح شفاء ملی ہے اس سے؟
شیخ صاحب ایک بار پھر مسکرائے اور مجھ سے یوں مخاطب ہوئے: دو باتوں سے تمہارا مسئلہ بڑھ رہا تھا۔
پہلا: سارے دن کے کام کے بعد شام کو تم تھکے ہارے گھر پہنچتے تھے تو تمہارا مطمع نظر محض سکون اور آرام ہوتا تھا بغیر کسی اضافی کام یا مشقت کے۔
دوسرا: تمہاری بیوی سارے دن کی تنہائی، خاموشی اور اُکتاہٹ کا شکار تھی، تمہارے گھر پہنچنے پر وہ تم سے باتیں کرنا چاہتی تھی مگر گفتگو کو شروع کرنے کیلئے کوئی مناسب موضوع نہ ملنے پر وہ طعن و تشیع اور فضول الزم تراشی پر اتر آتی تھی۔
اور اس سب خرابیوں میں تمہارا کردار یہ تھا کہ تم اس طعن و تشیع اور الزم بازی میں تحمل کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے۔ اس رویئے کو نظر انداز کرنا تو در کنار، اُلٹا تم طلاق دینے کی سوچ رہے تھے۔
بیٹے: ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ تم خاموش رہ کر اپنی بیوی کی باتیں سنتے، اُسکی دلجوئی کرتے، سارے دن کی رویداد سنتے یا سناتے، یا اسکو اپنے سینے کی بھڑاس نکالنے کا موقع فراہم کرتے، یا پھر محض تمہاری خاموشی ہی اسکا علاج تھی۔
تمہارے مرض کی کیفیت کو ذہن میں رکھ کر میں نے جو علاج تجویز بوتل میں بند کر لے تمہیں دیا تھا، وہ محض میرے گھر کے گھڑے کا پانی تھا۔ تاکہ جب تک کچھ آرام پا کر تمہارا موڈ ٹھیک نہ ہو اس وقت تک پانی منہ میں رکھ کر کم از کم تمہارے ہونٹ تو سلے رہیں۔
میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ تم اتنا سا ہی خاموش رہنا سیکھ جاؤ جتنی دیر میں تمہاری بیوی بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی روئیداد نہ سنا لیا کرے۔اور جب وہ بول رہی ہو تو تم توجہ سے اُس کو سن لیا کرو۔
اس طرح اُس کے دل میں یہ بات بیٹھ سکتی تھی کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہ اُس کی محبت کیلئے ہے، اور رد عمل کے طور پر وہ بھی ایسا رویہ اپنائے جو تمہاری دل آزاری کا باعث نہ بنا کرے۔
بیٹے تمہاری بیوی کا علاج تمہاری طرف سے شروع ہونا تھا جس کی ابتداء میں نے تمہیں یہ دوا دے کر کی۔اور اس علاج سے میں یہی بات میں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا کہ تمہاری بیوی کی دوا – اکسیر جنونِ نسواں – صرف اور صرف تمہاری خاموشی تھی۔
میری طرف سے تھوڑا سا اضافہ: عزیزان من، آپ بیشک بہت اچھے مقرر اور بہت اچھی گفتگو کرنے کا فن رکھنے والے ہونگے، مگر کبھی دوسروں کو بھی بولنے کا موقع دیجیئے، شاید آپ کو اس طرح کچھ فائدہ ہی پونہچے، ورنہ کم از کم آپ کی سماعت سے بولنے والا عزت افزائی تو ضرور ہی محسوس کرے گا ناں! اور یہی کچھ گفتگو کے آداب میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیمات دی ہیں۔
No comments:
Post a Comment