Sunday, September 4, 2011

شیر

شیر آئے، شیر آئے، دوڑنا
آج کل ہر طرف شیر گھوم رہے ہیں۔
دھاڑ رہے ہیں۔
!یہ شیرِ بنگال ہے
!!یہ شیرِسرحد ہے
!!یہ شیرِپنجاب ہے
لوگ بھڑیں بنے اپنے اپنے باڑوں میں دبکے ہوئے ہیں
بابا حفیظ جالندھری کا شعر پڑھ رہے ہیں
” شیروں کو آزادی ہے
آزادی کے پابند رہیں
جس کو چاہیں، چیریں پھاڑیں
کھائیں پئیں آنند رہیں”
شیر یا تو جنگل میں ہوتے ہیں
!یا چڑیا گھر میں
،یہ مُلک یا تو جنگل ہے
!یا چڑیا گھر ہے
!یا پھر قالین ہوگا
یاپھر کاغذ ہوگا
کیونکہ ایک شیر کاغذی بھی ہوتا ہے
یا پھر یہ جانور کچھ اور ہیں
آگا شیر کا، پیچھا بھیڑ کا
ہمارے ملک میں یہ جانور عام پایا جاتا ہے۔
شیر جنگل کا بادشاہ ہے
لیکن اب بادشاہوں کا زمانہ نہیں رہا
اس لیئے شیروں کا زمانہ بھی نہیں رہا
آج کل شیر اور بکریاں ایک گھاٹ پر پانی نہیں پیتے
بکریاں سینگوں سے کُھدیڑ بھگاتی ہیں۔
لوگ باگ ان کی دُم میں نمدہ باندھتے ہيں۔
،شکاری شیروں کو مار لاتے ہیں
اُن کے سر دیواروں پر سجاتے ہیں
ان کی کھال فرش پر بچھاتے ہيں
اُن پر جوتوں سمیت دندناتے ہیں
لوگوں کو فخر سے دکھاتے ہیں
میرے شیر تجھ پر بھی رحمت خدا کی
تو بھی وعظ مت کر
!اپنی کھال میں رہ

پچھلا جانور - آدمی                                         آغاز 

1 comment: