کولمبیا کی ایک یونیورسٹی میں ریاضیات کے لیکچر کے دوران کلاس میں حاضر ایک لڑکا بوریت کی وجہ سے سارا وقت پچھلے بنچوں پر مزے سے سویا رہا، لیکچر کے اختتام پر طلباء کے باہر جاتے ہوئے شور مچنے پر اسکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ پروفیسر نے تختہ سیاہ پر دو سوال لکھے ہوئے ہیں۔ لڑکے نے انہی دو سوالوں کو ذمیہ کام سمجھ کر جلدی جلدی اپنی نوٹ بک میں لکھا اور دوسرے لڑکوں کے ساتھ ہی کلاس سے نکل گیا۔ گھرجا کرلڑکا ان دو سوالوں کےحل سوچنے بیٹھا۔ سوال ضرورت سے کچھ زیادہ ہی مشکل ثابت ہوئے۔ ریاضیات کا اگلا سیشن چار دنوں کے بعد تھا اس لئے لڑکے نے سوالوں کو حل کرنے کیلئے اپنی کوشش جاری رکھی۔ اور یہ لڑکا چار دنوں کے بعد ایک سوال کو حل کر چکا تھا۔
اگلی کلاس میں لڑکے کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پروفیسر نے آتے ہی بجائے دیئے ہوئے سوالوں کے حل پوچھنے کے، نئے موضوع پر پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ لڑکا اُٹھ کر پروفیسر کے پاس گیا اور اُس سے کہا کہ اُستاد صاحب، میں نے چار دن لگا کر ان چار صفحات پر آپکے دیئے ہوئے دو سوالوں میں سے ایک کا جواب حل کیا ہے اور آپ ہیں کہ کسی سے اس کے بارے میں پوچھ ہی نہیں رہے؟
اُستاد نے حیرت سے لڑکے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ میں نے تو کوئی ذمیہ کام نہیں دیا تھا۔ ہاں مگر میں نے تختہ سیاہ پر دو ایسے سوال ضرور لکھے تھے جن کو حل کرنے میں اس دُنیا کے سارے لوگ ناکام ہو چکے ہیں۔
جی ہاں۔ یہی منفی اعتقادات ہیں جنہوں نے اس دُنیا کے اکثر علماء کو ان مسائل کے حل سے ہی باز رکھا ہوا تھا کہ انکا کوئی جواب دے ہی نہیں سکتا تو کوئی اور کیوں کر انکو حل کرنے کیلئے محنت کرے۔ اور اگر یہی طالبعلم عین اُس وقت جبکہ پروفیسر تختہ سیاہ پر یہ دونوں سوال لکھ رہا تھا، جاگ رہا ہوتا اور پروفیسر کی یہ بات بھی سن رہا ہوتا کہ کہ ان دو مسائل کو حل کرنے میں دنیا ناکام ہو چکی ہے تو وہ بھی یقیناً اس بات کو تسلیم کرتا اور ان مسائل کو حل کرنے کی قطعی کوشش ہی نا کرتا۔ مگر قدرتی طور ہر اُسکا سو جانا اُن دو مسائل میں سے ایک کے حل کا سبب بن گیا۔ اس مسئلے کا چار صفحات پر لکھا ہوا حل آج بھی کولمبیا کی اُس یونیورسٹی میں موجود ہے۔
No comments:
Post a Comment