Saturday, August 6, 2011

(صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے (حصہ سوئم - کولڈ سٹور کا قیدی

کہتے ہیں کہ کسی  غذائی مواد  کو سٹور اور فروخت کرنے والی  کمپنی  کے ایک کولڈ سٹور میں،  وہاں کام کرنے والا ایک شخص سٹور میں  موجود سٹاک کے  معائنے  اورسامان کی  گنتی کیلئے گیا۔وہ جیسے ہی کولڈ سٹور میں  داخل ہوا تو پیچھے سے دروازہ بند ہوگیا۔ اس شخص نے شروع میں خود دروازہ کھولنے اور پھر بعد میں دروازہ پیٹ کر باہر سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر دونوں صورتوں میں ناکام رہا۔ بد قسمتی سے اس وقت ہفتے کے اختتامی لمحات  چل رہے تھے۔ اور اگلے دو دن ہفتہ وار چٹھیاں تھیں۔ اس شخص نے جان لیا کہ باہر کی دنیا سے رابطہ کا کوئی ذریعہ نہیں رہا اور نا ہی  وہ کسی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے تو یقینی بات ہے کہ  اُس کی ہلاکت کا وقت آ چکا ہے۔

تھک ہار کر یہ شخص بیٹھ کر اپنے انجام کا انتظار کرنے لگ گیا۔ اور دو دن کے بعد جب یہ کولڈ سٹور دوبارہ کھولا گیا تو واقعی یہ شخص مرا ہوا پایا گیا تھا۔
لوگوں نے اُس کے قریب ہی پڑے ہوئے کاغذات اٹھا کر دیکھے جن پر وہ شخص اپنے مرنے سے پہلے اپنے محسوسات لکھتا رہا تھا۔ کاغذوں پر لکھا ہوا تھا کہ۔۔۔۔(میں اس کولڈ سٹور میں مکمل طور پر قید ہو چکا ہوں۔ ۔۔۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میرے آس پاس برف جمنا شروع ہو گئی ہے۔۔۔۔  میں سردی سے ٹھٹھر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ اب تو مجھے ایسا لگ  رہا ہے کہ میں حرکت بھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں سردی سے مر ہی جاؤں گا۔۔۔۔) لکھائی ہر جملے کے ساتھ ضعیف سے ضعیف تر ہوتی گئی تھی یہاں تک کہ لکھنے کا سلسلہ ہی منقطع ہو گیا تھا۔
ان سب باتوں میں جو سب سے عجیب بات دیکھنے میں آئی تھی وہ یہ تھی کہ کولڈ سٹور  میں کولنگ سسٹم کی تو بجلی ہی بند تھی اور وہ تو چل ہی نہیں رہا تھا۔
کیا خیال ہے آپکا؟ کس نے قتل کیا تھا  اس شخص کو؟ جی ہاں، اس شخص کو اُس کے وہم نے مار ڈالا تھا۔  اُسے یقین تھا کہ کولڈ سٹور چل رہا ہے اور یہاں کا درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے ہے جس سے ہر چیز جم جائے گی اور وہ مر جائے گا۔
اسی وجہ سے تو کہا جاتا ہے کہ منفی افکار اور عقائد سے بندھ کر اپنی زندگی کو کنٹرول کرنا ہی نا بند کر دیا جائے۔  ہزاروں لوگ ایسے  گزرے ہیں جنہیں اپنی ذات پر بھروسہ ہی نہیں تھا اور انہوں نے اپنے ہاتھوں میں آئے ہوئے کاموں اور موقعوں کو یہ سوچ کر چھوڑ دیا تھا کہ یہ کام اُن کے بس کا نہیں تھا ۔ جبکہ حقیقت میں معاملہ اسکے بالکل ہی بر عکس تھا۔

No comments:

Post a Comment