Monday, August 1, 2011

(اخفش کی بکریاں (بز اخفش


میں جب بہت چھوٹا تھا تو مجھے اپنا سکول کا کام کرنے میں بہت دشواری پیش آتی تھی. میرے والد صاحب مجھے تھوڑا سا اشارہ دے کر میری مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے.میں  چاہتا تھا کہ وہ میرے لیے حساب کا سوال حل کریں مگر وہ ایسا نہیں کرتے تھے.  لہذا میں ان کا اشارہ سمجھنے کی کوشش میں مشغول چپ چاپ بیٹھا اپنی کاپی کو دیکھتا رہتا. پھر وہ مجھ سے پوچھتے کہ کیا مجھے سمجھ آ گئی ہے؟ اور میں آہستگی سے ہاں میں سر کو ہلا دیتا. اور والد صاحب کی گونجدار آواز  کانوں سے ٹکراتی

"اپنے سر کو بز اخفش کی طرح نہ ہلاؤ- کیا تمہیں سمجھ آئی ہے جو کچھ میں نے کہا ہے"
-اور پھر کیا تھا، جو کچھ انہوں نے کہا ہوتا میں وہ سب (بغیر سمجھے) دہرانے لگتا
اکثر آپ نے بھی بز اخفش یا اخفش کی بکریوں کی ضرب المثل تو ضرور سنی ہوگی. اور اگر نہیں سنی یا سنی تو ضرور مگر اس کا مطلب سمجھ نہیں آیا تو کوئی بات نہیں، ابھی آپ کو اخفش صاحب کا قصہ سنا دیتے ہیں 
 اخفش نامی ایک شخص تھا جو پڑھنے لکھنے کا بڑا شوقین تھا۔ اسے استاد سے جو سبق یادا کرنے کو ملتا‘ اسے وہ بار بار دہراتا تھا تاہم گھر آکر اسے کوئی ایسا سامع میسر نہیں تھا جسکے سامنے سبق دہراتا اور وہ اسکی غلطی پکڑتا۔
اسکی ایک بکری تھی چنانچہ اخفش بکری کے سامنے بیٹھ کر اپنا سبق دہراتا۔ اگر بکری اوپر نیچے سر ہلاتی تو اخفش اسے مثبت سمجھتا‘ گویا وہ ٹھیک دہرا رہا ہے۔ اگر بکری کا سر دائیں بائیں ہلتا تو اخفش اپنی غلطی تصور کرکے اپنا سبق پھر سے دہرانا شروع کر دیتا۔
مجھے تو اخفش کی بکری کا قصہ سننے کے بعد سمجھ آئی کہ یہ بز اخفش استعمال کیوں اور کہاں کیا جاتا ہے. اور بادل ناخواستہ میرا سر ہاں میں ہلا ہے مگر اب کی بار یہ بز اخفش نہیں
تحریر: محمّد عرفان

No comments:

Post a Comment