کتا پالتوجانور ہے۔ ہمارے شہر کی کارپوریشن اسے پالتی ہے اور مختلف علاقوں میں چھوڑ دیتی ہے۔ کارپوریشن اور بھی کئی جانور پالتی ہے مثلاً مچھر، مثلاً چوہے۔ لیکن بھونکنے والا جانور یہی ہے۔ کتابوں میں آیا ہے کہ جو کتے بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں۔ کاٹنے والے کو بھونکنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بھونکتا وہ ہے جسے کاٹا جائے جس کو گزند پہنچے۔
کتا بڑا وفادار جانور ہے، کارپوریشن بھی اس کی بہت وفادار ہے۔جن دنوں میں کتّےشہریوں کو کاٹتے ہیں، کارپوریشن بھی ان کی ہمدردی میں کاٹنا شروع کر دیتی ہے کہ یہ ٹیکس لاؤ ، وہ ٹیکس لاؤ۔ ناطقے کے علاوہ بھی کبھی کبھی پانی بند کر دیتی ہے جس سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ کارپوریشن کا شجرہ حضرت امام حسین کے کسی صاحبِ اقتدار ہمعصر سے جا ملتا ہے۔
کارپوریشن کے علاوہ نجی شعبے میں بھی کتے ہوتے ہیں۔ ریّسوں کے کتے غریبوں پر بھونکتے ہیں۔ غریبوں کے کتے اپنے آپ پر بھونکتے ہیں۔
کتا اپنی گلی میں شیر ہوتا ہے، جس طرح شیر کسی دوسرے کے گلی میں کتا بن جاتا ہے۔
کتوں اور عاشقوں میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں راتوں کو گھومتے ہیں، اور اپنا اپنا کلام پڑھ پڑھ کر لوگوں کو جگاتے ہیں۔ اور اینٹ اور پتھر کھاتے ہیں۔ ہاں ایک کتا لیلی کا بھی تھا۔ لوگ لیلیٰ تک پہنچنے کے لئےاس سے پیار کرتے تھے۔ اس کی خوشامد کرتے تھے جس طرح صاحب کے سیکریڑی یا چپراسی کی کرنی پڑتی ہے۔
حضرت امامِ عالی مقام کے کسی صاحبِ اقدار نہیں ۔۔۔ صاحبِ اقتدار ہم عصر کہیے ، معنی میں زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے ۔شکریہ ،محتاط رہیے ۔
ReplyDeleteغلطی کی نشاندھی کا شکریہ- تصحیح کر دی گئی ہے
ReplyDelete