رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
یہ شعر مولوی اسماعیل میرٹھی کا ہے۔ شیخ سعدی وغیرہ کا نہیں ۔ یہ بھی خوب جانور ہے دودھ کم دیتی ہے۔ عزت زیادہ کراتی ہے، پرانے خیال کے ہندو اسے ماتا جی کہ کر پکارتے ہیں، ویسے بچھڑوں سے بھی اس کا یہی رشتہ ہوتا ہے۔
صحیح الخیال ہندوگائے کا دودھ پیتے ہیں، اس کے گوبرسےچُوکا لیپتے ہیں لیکن اس کو کاٹنا اور کھانا پاپ سمجھتے ہیں۔ ان کے عقیدے میں جو گائے کو کاٹتا ہے، اورکھاتا ہے سیدھا نرک میں جاتا ہے، راستے میں کہیں دم نہیں لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ گائے دودھ دینا بند کر دے تو ہندو اسے قصاب کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں۔ قصاب مسلمان ہوتا ہے، اُسے ذبح کرتا ہے اور دوسروں کو کھلاتا ہے، تو سارے نرک میں جاتے ہیں۔ بیچنے والے کو روحانی تسکین ہوتی ہے، پیسے الگ ملتے ہیں۔
جن گائیوں کو قصاب قبول نہ کریں انھیں گئو شالاؤں میں رکھا جاتا ہے، جہاں وہ بھوکی رہ کر تپسیا کرتی ہیں، اور کّووں کے ٹھونگے کھاتی پرلوک سدھارتی ہیں۔ غیر ملکی سیاح ان کے فوٹو کھینچتے ہیں، کتابوں میں چھاپتے ہیں۔ کھالیں برامد کی جاتی ہیں۔ زرِمبادلہ کمایا جاتا ہے۔
hahaha
ReplyDeletenice sharing
ReplyDeleteشکریہ
ReplyDelete