Tuesday, August 30, 2011

کتا

کتا پالتوجانور ہے۔ ہمارے شہر کی کارپوریشن اسے پالتی ہے اور مختلف علاقوں میں چھوڑ دیتی ہے۔ کارپوریشن اور بھی کئی جانور پالتی ہے مثلاً مچھر، مثلاً چوہے۔ لیکن بھونکنے والا جانور یہی ہے۔ کتابوں میں آیا ہے کہ جو کتے بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں۔ کاٹنے والے کو بھونکنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بھونکتا وہ ہے جسے کاٹا جائے جس کو گزند پہنچے۔

Monday, August 29, 2011

زبان کے لگائے ہوئے زخم


کسی جگہ ایک لڑکا رہتا تھا،  انتہائی  اکھنڈ مزاج اور غصے سے بھرا رہنے والا، اُسے راضی کرنا تو  آسان کام تھا ہی نہیں۔
ایک دن اُس کے باپ نے  ایک تھیلی میں کچھ کیل ڈال کر اُسے دیئے کہ آئندہ  جب بھی  تم اپنے آپے سے باہر ہو جاؤ یا کسی سے اختلافِ رائے ہو جائے تو گھر کے باغیچے کی دیوار پر جا کر ایک کیل گاڑ دیا کرو۔

Thursday, August 25, 2011

حکمران اور تھکا دینے والا امتحان

سیدنا عمر اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے درمیان پیش آنے والے اس واقعہ میں، جو لوگ غور و فکر اور تدبر کرنا چاہتے ہوں، اُن کی عبرت کے لئے بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں۔

ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب (روضۃ المُحبین و نزھۃ المشتاقین) میں لکھتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کی نماز کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غائب پاتے۔

وہ دیکھ رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کی ادائیگی کیلئے تو باقاعدگی سے مسجد میں آتے ہیں مگر جونہی نماز ختم ہوئی وہ چپکے سے مدینہ کے مضافاتی علاقوں میں ایک دیہات کی طرف نکل جاتے ہیں۔

کئی بار ارادہ بھی کیا کہ سبب پوچھ لیں مگر ایسا نہ کر سکے ۔ ایک بار وہ چپکے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل دیئے۔

Tuesday, August 23, 2011

نماز کی عظمت واہمیت

صحابی رسول(صلی الله علیه و آله و سلّم) حضرت ابو طلحہ انصاری (رضی اللہ عنہ) ایک مرتبہ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک پرندہ اڑا اور باغ کے گنجان ہونے کے باعث اسے باہر جانے کا راستہ نہ ملا جس کی وجہ سے وہ پھڑ پھڑاتا ہوا درختوں کے درمیان سے باہر جانے کا راستہ ڈھونڈتارہا

Monday, August 22, 2011

کیا آج کے آئمہ میں ایسے اعلیٰ اخلاق و کردار پاۓ جاتے ہیں؟

ایک مرتبہ امام ابو حنیفہ کہیں جا رہے تھے‘ راستے میں زبردست کیچڑ تھا‘ ایک جگہ آپ کے پاؤں کی ٹھوکر سے کیچڑ اڑکر ایک شخص کے مکان کی دیوار پر جالگا‘ یہ دیکھ کر آپ بہت پریشان ہوگئے کہ کیچڑ اکھاڑ کر دیوار صاف کی جائے تو خدشہ ہے کہ دیوار کی کچھ مٹی اتر جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دیا تو دیوار خراب رہتی ہے۔

Saturday, August 20, 2011

اُونٹ

اُونٹ ایک جانور ہے، اکبر الہ آبادی نے اسے مسلمان سے تشبیہ دی ہے کیونکہ مسلمان کی طرح اس کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی اور مسلمان کی طرح یہ بھی صحرا کا جانور ہے۔ بہت دن تک بے کھائے پیئے زندہ رہتا ہے۔ جس طرح ہر مسلمان کی پیٹھ پر عظمتِ رفتہ کا کوہان ہوتا ہے اس کی پیٹھ پر بھی ہوتا ہے۔ 

Thursday, August 18, 2011

گدھا


گدھا بڑا مشہور جانور ہے۔ گدھے دو طرح کے ہوتے ہیں،چار پاؤں والے اور دو پاؤں والے۔ سینگ ان میں کسی کے سر پر نہیں ہوتے۔ آج کل چار پاؤں والے گدھوں کی نسل گھٹ رہی ہے دو پاؤں والوں کی بڑھ رہی ہے۔

Tuesday, August 16, 2011

بکری


گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی، لیکن دودھ یہ بھی دیتی ہے۔ عام طور پرصرف دودھ دیتی ہے لیکن مجبور کریں تو کچھ منگنیاں بھی ڈال دیتی ہے۔
جن بکریوں کو شہرتِ عام اور بقائے دوام میں جگہ ملی ہے، ان میں ایک گاندھی جی کی بکری تھی اور ایک اخفش نامی بزرگ کی، روایت ہے کہ وہ بکری نہیں بکرا تھا، معقول صورت۔

بھیڑ


بھیڑ کی کھال مشہور ہے، بھیڑ کی چال مشہور ہے اور بھیڑ کا مآل بھی مشہور ہے۔ بہت کم بھیڑیں عمرِ طبعی کو پہنچتی ہیں۔

Saturday, August 13, 2011

گائے

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری گائے بنائی

یہ شعر مولوی اسماعیل میرٹھی کا ہے۔ شیخ سعدی وغیرہ کا نہیں ۔ یہ بھی خوب جانور ہے دودھ کم دیتی ہے۔ عزت زیادہ کراتی ہے، پرانے خیال کے ہندو اسے ماتا جی کہ کر پکارتے ہیں، ویسے بچھڑوں سے بھی اس کا یہی رشتہ ہوتا ہے۔

Thursday, August 11, 2011

بھینس

بہت مشہور جانور ہے، قدمیں عقل سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے. چوپایوں میں یہ واحد جانور ہے کہ موسیقی سے ذوق رکھتا ہے. اسی لئے لوگ اِس کے آگے بین بجاتے ہیں. کسی اور جانور کے آگے نہیں بجاتے.

بيا ن پا لتو جا نورں کا

بھلا ایسا بھی کوئی گھر ہے جس ميں ایک نہ ایک پالتو جانور نہ ہو. گائے نہیں تو بھینس، بھیڑ نہیں تو بکری. کتا نہیں تو بّلی، گھوڑا نہیں تو گدھا. جانور پالنا بڑی اچھی بات ہے. یہ صرف انسان کا خاصہ ہے. آپ نے کبھی نہ دیکھا ہوگا کہ کسی طوطے نے خرگوش پالا ہو، کسی مرغی نے کوئی بّلی پالی ہو، یا کسی گدھے نے کوئی گھوڑا پالا ہو. گدھا بظاہر کیسا بھی نظر آئے ایسا گدھا بھی نہیں ہوتا

Monday, August 8, 2011

(صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے (حصہ چہارم - ہاتھی اور اُسکی رسی

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب  میں نے ایک چڑیا گھر میں ایک عظیم الجثہ ہاتھی کو ایک چھوٹی  سی رسی سے  اسکے اگلے پاؤں کو بندھا ہوا دیکھا تو مجھے بہت حیرت  ہوئی تھی۔ ہاتھی رسی کے ساتھ بندھے ہوئے کھڑا  تھا ایک محدود دائرے میں گھوم رہا تھا۔ ہاتھی کی ضخامت کے اعتبار سے تو اُسے کسی مضبوط زنجیر اور فولادی کڑے سے باندھا جانا چاہیئے تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ ہاتھی کسی بھی لمحے اپنے پاؤں کی معمولی جنبش سے اس رسی کو تڑا کر آزادی حاصل کر سکتا تھا مگر وہ ایسا نہیں کر رہا تھا۔
مجھے جیسے ہی ہاتھی کا رکھوالا نظر آیا تو میں نے اُسے اپنے پاس بلا کر پوچھا: یہ اتنا بڑا ہاتھی کس طرح ایک چھوٹی سی رسی سے بندھا ہوا کھڑا ہے اور یہ کیوں نہیں اپنے آپ کو چھڑوا کر بھاگ جاتا؟

Saturday, August 6, 2011

(صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے (حصہ سوئم - کولڈ سٹور کا قیدی

کہتے ہیں کہ کسی  غذائی مواد  کو سٹور اور فروخت کرنے والی  کمپنی  کے ایک کولڈ سٹور میں،  وہاں کام کرنے والا ایک شخص سٹور میں  موجود سٹاک کے  معائنے  اورسامان کی  گنتی کیلئے گیا۔وہ جیسے ہی کولڈ سٹور میں  داخل ہوا تو پیچھے سے دروازہ بند ہوگیا۔ اس شخص نے شروع میں خود دروازہ کھولنے اور پھر بعد میں دروازہ پیٹ کر باہر سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر دونوں صورتوں میں ناکام رہا۔ بد قسمتی سے اس وقت ہفتے کے اختتامی لمحات  چل رہے تھے۔ اور اگلے دو دن ہفتہ وار چٹھیاں تھیں۔ اس شخص نے جان لیا کہ باہر کی دنیا سے رابطہ کا کوئی ذریعہ نہیں رہا اور نا ہی  وہ کسی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے تو یقینی بات ہے کہ  اُس کی ہلاکت کا وقت آ چکا ہے۔

Wednesday, August 3, 2011

(صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے (حصہ دوئم - تیز دوڑنے سے متعلق غلط اعتقاد


آج سے پچاس سال پہلے تک دوڑنے کی مشق کے بارے میں ایک غلط عقیدہ پایا جاتا تھا کہ: کوئی بھی انسان چار منٹوں سے کم وقت میں دوڑ کر ایک میل کی مسافت طے نہیں کر سکتا۔ اگر کسی شخص نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو اُسکا دل پھٹ جائے گا۔

Tuesday, August 2, 2011

(صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے (حصہ اول - طالبعلم اور نا قابل حل سوالات


کولمبیا کی ایک یونیورسٹی میں ریاضیات کے لیکچر کے دوران کلاس میں حاضر ایک لڑکا بوریت کی وجہ سے سارا وقت پچھلے بنچوں پر مزے  سے  سویا رہا، لیکچر کے اختتام پر طلباء کے باہر جاتے ہوئے شور مچنے پر اسکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ پروفیسر نے تختہ سیاہ پر دو سوال لکھے ہوئے ہیں۔ لڑکے نے انہی دو سوالوں کو ذمیہ کام سمجھ کر جلدی جلدی اپنی نوٹ بک میں لکھا اور دوسرے لڑکوں کے ساتھ ہی کلاس سے نکل گیا۔ گھرجا کرلڑکا ان دو سوالوں کےحل سوچنے بیٹھا۔ سوال ضرورت سے کچھ زیادہ ہی مشکل ثابت ہوئے۔ ریاضیات کا اگلا سیشن چار دنوں کے بعد تھا اس لئے لڑکے نے سوالوں کو حل کرنے کیلئے اپنی کوشش جاری رکھی۔ اور یہ لڑکا چار دنوں کے بعد ایک سوال کو حل کر چکا تھا۔

Monday, August 1, 2011

(اخفش کی بکریاں (بز اخفش


میں جب بہت چھوٹا تھا تو مجھے اپنا سکول کا کام کرنے میں بہت دشواری پیش آتی تھی. میرے والد صاحب مجھے تھوڑا سا اشارہ دے کر میری مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے.میں  چاہتا تھا کہ وہ میرے لیے حساب کا سوال حل کریں مگر وہ ایسا نہیں کرتے تھے.  لہذا میں ان کا اشارہ سمجھنے کی کوشش میں مشغول چپ چاپ بیٹھا اپنی کاپی کو دیکھتا رہتا. پھر وہ مجھ سے پوچھتے کہ کیا مجھے سمجھ آ گئی ہے؟ اور میں آہستگی سے ہاں میں سر کو ہلا دیتا. اور والد صاحب کی گونجدار آواز  کانوں سے ٹکراتی